دل مضطر کو سمجھا لوں بہت ہے
دل مضطر کو سمجھا لوں بہت ہے
میں خود سے اپنا گھر چھالوں بہت ہے
میں اپنی زندگی بے وفا کو
وفا کے جام میں ڈھالوں بہت ہے
بھگو کر آنسوؤں سے اپنا چہرہ
سفر کی گرد دھو ڈالوں بہت ہے
سکوت انجمن ٹوٹے نہ ٹوٹے
بہ شوق زمزمہ گا لوں بہت ہے
نواح زندگی میں اک ذرا سا
فریب دوستی کھا لوں بہت ہے
کوئی بھولا سبق پارینہ قصہ
میں دل ہی دل میں دہرا لوں بہت ہے
نہ جائے رائیگاں ذوق تجسس
میں اپنے آپ کو پا لوں بہت ہے
جو سنگ میل رہزن کے لئے ہے
وہ سنگ راہ اٹھوا لوں بہت ہے
صباؔ دیوار زندان بلا سے
میں اپنے سر کو ٹکرا لوں بہت ہے