بے معنی لا حاصل ردی شعروں کا ہے جال ادھر

بے معنی لا حاصل ردی شعروں کا ہے جال ادھر
جو چیزیں بیکار ہیں پیارے ان چیزوں کو ڈال ادھر


کچھ تجویزیں پاس کرے گا وقت کے ہاتھوں یہ اجلاس
مجبور و نادار ادھر ہیں آسودہ خوش حال ادھر


بیچ میں حائل کر دے کوئی کاش تکلف کی دیوار
ادھر ہے ریلا گل چینوں کا اور گلوں میں کال ادھر


خون تمنا کی سرخی سے دل کی حکایت ہے رنگیں
دامن کی تقدیر ادھر ہے گلشن کا اقبال ادھر


ان کی بزم سے آنے والے تھام کے دل فرماتے ہیں
جانے والو ادھر نہ جاؤ جرم ہے عرض حال ادھر


جلسۂ غم کی تیاری میں ادھر ہیں جیتے جی مصروف
پیدائش کا جشن منایا یاروں نے ہر سال ادھر


اک مدت سے دیکھ رہا ہوں ہوتا ہے ہر بار یہی
ادھر صباؔ نے خواب سجایا وقت نے بدلی چال ادھر