حیوان کی منزل میں بشر ہے کہ نہیں ہے
حیوان کی منزل میں بشر ہے کہ نہیں ہے
انسان کو انسان کا ڈر ہے کہ نہیں ہے
معیار تجلی سے تو واقف ہیں نگاہیں
جلوؤں کو بھی انداز نظر ہے کہ نہیں ہے
فرزانہ دوراں بھی ہے اس بات پہ خاموش
دیوانہ سر راہ گزر ہے کہ نہیں ہے
جس عزم سے منزل پہ پہنچتے ہیں مسافر
وہ عزم بہ ایں ذوق سفر ہے کہ نہیں ہے
بے ساختہ منزل کی طرف بھاگنے والو
رفتار زمانہ کی خبر ہے کہ نہیں ہے
رنگینیٔ آغاز بہاراں کے اسیرو
انجام بہاراں پہ نظر ہے کہ نہیں ہے
ناقدریٔ افکار کے اس دور فلک میں
مائل بہ قلم دست ہنر ہے کہ نہیں ہے
ارباب محبت پہ جو ڈھائی ہے قیامت
اس شام شب غم کی سحر ہے کہ نہیں ہے
جس در سے نسیم سحری گھر میں ہو داخل
کاشانۂ امکاں میں وہ در ہے کہ نہیں ہے
باطل کا گلا کاٹ دے جو حق کی مدد سے
خون رگ جاں میں وہ اثر ہے کہ نہیں ہے
جس داغ کی تعریف ہے داغ غم جاناں
وہ داغ بہ معیار جگر ہے کہ نہیں ہے
وہ زخم تمنا جو مقدر ہے صباؔ کا
اس زخم پہ حکمت کی نظر ہے کہ نہیں ہے