شاعری

جو اس کا کھیل تھا یا دل لگی تھی

جو اس کا کھیل تھا یا دل لگی تھی وہی میرے لئے دل کی لگی تھی ملا تھا جب تلک نہ ساتھ تیرا ادھوری کس قدر یہ زندگی تھی سمندر کی طرح دل تھا یہ بے کل عجب ہلچل مرے اندر رہی تھی مناظر ہو گئے تھے گم یا شاید مری ہی آنکھ بے منظر رہی تھی بنا ہے اجنبی لگتا نہیں ہے کبھی مجھ سے کوئی وابستگی ...

مزید پڑھیے

خواب آنکھوں میں سجانا بھی ضروری ٹھہرا

خواب آنکھوں میں سجانا بھی ضروری ٹھہرا زندہ رہنے کا بہانہ بھی ضروری ٹھہرا اس کو احساس پذیرائی دلانے کے لئے در و دیوار سجانا بھی ضروری ٹھہرا جو ستم اس نے کئے اس کو جتانے کے لئے آئنہ اس کو دکھانا بھی ضروری ٹھہرا تیری یادیں جو پریشان کئے رکھتی ہیں اس لئے تجھ کو بھلانا بھی ضروری ...

مزید پڑھیے

آدمی زاد ہو فطرت کے مطابق مانگو

آدمی زاد ہو فطرت کے مطابق مانگو جاؤ دل کھول کے شہوت کے مطابق مانگو اس میں کس بات کا ڈرنا کہ کوئی دیکھے گا اپنی اوقات و ضرورت کے مطابق مانگو اس بکھیڑے میں میسر کے مطابق پڑنا عشق حالات سے فرصت کے مطابق مانگو ہاں یہ لازم ہے کہ رائج کا بھرم رکھو تم رب سے اپنوں کی شریعت کے مطابق ...

مزید پڑھیے

درست ہے کہ یہ دن رائیگاں نہیں گزرے

درست ہے کہ یہ دن رائیگاں نہیں گزرے مگر سکوں سے تو اے جان جاں نہیں گزرے مزاج شہر جنوں اب یہ برہمی کیسی کس آگ سے ترے پیر و جواں نہیں گزرے نظر سے دور سہی پھر بھی کشتگان وفا وہاں سے کم تو یہ صدمے یہاں نہیں گزرے مروتاً وہ مری بات پوچھ کر چپ ہیں وگرنہ کب مرے شکوے گراں نہیں ...

مزید پڑھیے

بظاہر رونقوں میں بزم آرائی میں جیتے ہیں

بظاہر رونقوں میں بزم آرائی میں جیتے ہیں حقیقت ہے کہ ہم تنہا ہیں تنہائی میں جیتے ہیں سجا کر چار سو رنگیں محل تیرے خیالوں کے تری یادوں کی رعنائی میں زیبائی میں جیتے ہیں خوشا ہم امتحان دشت گردی کے نتیجے میں بصد اعجاز مشق آبلہ پائی میں جیتے ہیں ستم گاروں نے آئین وفا منسوخ کر ...

مزید پڑھیے

یہ سیل اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے

یہ سیل اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے جو یہ کہوں کہ وفا کا مری حساب تو دے بھری بہار رتوں میں بھی خار لے آئی یہ انتظار کی ٹہنی کبھی گلاب تو دے نہیں نہیں میں وفا سے کنارہ کش تو نہیں وہ دے رہا ہے مجھے ہجر کا عذاب تو دے یہ خامشی تو قیامت کی جان لیوا ہے وہ دل دکھائے مگر بات کا جواب تو ...

مزید پڑھیے

اس کی شباہت کسی شمس و قمر میں نہیں

اس کی شباہت کسی شمس و قمر میں نہیں ایک اسے دیکھ کر کوئی نظر میں نہیں قاصد زہرہ مقام کہہ اسے میرا سلام جس کا نشیمن مری راہ گزر میں نہیں کیا کشش جذب دل تجھ میں کمی ہے کہ وہ محور سیارگاں تیرے اثر میں نہیں چشم ستارا شمار کشتہ صدا انتظار دید کی کوئی نوید نجم سحر میں نہیں ہم جو ...

مزید پڑھیے

نہیں جانے ہے وہ حرف ستائش برملا کہنا

نہیں جانے ہے وہ حرف ستائش برملا کہنا مگر نظروں ہی نظروں میں وہ اس کا واہ وا کہنا سر محفل کرے رسوا مرا بے ساختہ کہنا مرے فن کار یہ نازک خیالی واہ کیا کہنا مرے ناراض شانوں کو تھپک کر بارہا کہنا چلو چھوڑو گلے شکوے کبھی مانو مرا کہنا کوئی مصروفیت ہوگی وگرنہ مصلحت ہوگی نہ اس پیماں ...

مزید پڑھیے

یہی کاغذ یہی قلم ہوگا

یہی کاغذ یہی قلم ہوگا روز اک واقعہ رقم ہوگا ابھی بھیگیں گی اور بھی پلکیں ابھی آنچل کچھ اور نم ہوگا میری حالت اسے نہ بتلانا وہ سنے گا تو اس کو غم ہوگا میرے خوابوں کا میری آنکھوں میں کیا وجود اور کیا عدم ہوگا اس سے ملنا بہت ضروری ہے درد کچھ تو صبیحہؔ کم ہوگا

مزید پڑھیے

بدن سے خاک کھرچنے سے در نکلتے ہیں

بدن سے خاک کھرچنے سے در نکلتے ہیں اسی لئے تو شجر ننگے سر نکلتے ہیں چراغ دیکھ کے مستی سبھی کو آتی ہے دیا جلے تو پتنگوں کے پر نکلتے ہیں گلے لگا کہ ذرا حوصلہ بڑھے میرا فقط یوں دیکھنے سے تھوڑی ڈر نکلتے ہیں تمہارے شہر میں سورج بڑا چمکتا ہے تمہارے شہر کے دن کس قدر نکلتے ہیں مرض جناب ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1136 سے 4657