بدن سے خاک کھرچنے سے در نکلتے ہیں

بدن سے خاک کھرچنے سے در نکلتے ہیں
اسی لئے تو شجر ننگے سر نکلتے ہیں


چراغ دیکھ کے مستی سبھی کو آتی ہے
دیا جلے تو پتنگوں کے پر نکلتے ہیں


گلے لگا کہ ذرا حوصلہ بڑھے میرا
فقط یوں دیکھنے سے تھوڑی ڈر نکلتے ہیں


تمہارے شہر میں سورج بڑا چمکتا ہے
تمہارے شہر کے دن کس قدر نکلتے ہیں


مرض جناب کا دارو سے کم نہیں ہونا
یہ بل تو آدمی کو مار کر نکلتے ہیں


ہلا کے ڈال سمندر کو میری آنکھوں پر
ابھی نکال یہ کنکر اگر نکلتے ہیں