خواب آنکھوں میں سجانا بھی ضروری ٹھہرا

خواب آنکھوں میں سجانا بھی ضروری ٹھہرا
زندہ رہنے کا بہانہ بھی ضروری ٹھہرا


اس کو احساس پذیرائی دلانے کے لئے
در و دیوار سجانا بھی ضروری ٹھہرا


جو ستم اس نے کئے اس کو جتانے کے لئے
آئنہ اس کو دکھانا بھی ضروری ٹھہرا


تیری یادیں جو پریشان کئے رکھتی ہیں
اس لئے تجھ کو بھلانا بھی ضروری ٹھہرا


محو ہو جائے مرے ذہن سے بھی اس کی شبیہ
اس کی تصویر ہٹانا بھی ضروری ٹھہرا


یہ ہے دستور محبت کہ ہمیشہ جس میں
وصل کے ساتھ بچھڑنا بھی ضروری ٹھہرا


اپنے چہرے پہ سجا لی ہے یہ بے کیف ہنسی
درد کو دل میں چھپانا بھی ضروری ٹھہرا


رسم الفت کو نبھانا ہے صبیحہؔ یوں بھی
روٹھ جائے تو منانا بھی ضروری ٹھہرا