اس کی شباہت کسی شمس و قمر میں نہیں

اس کی شباہت کسی شمس و قمر میں نہیں
ایک اسے دیکھ کر کوئی نظر میں نہیں


قاصد زہرہ مقام کہہ اسے میرا سلام
جس کا نشیمن مری راہ گزر میں نہیں


کیا کشش جذب دل تجھ میں کمی ہے کہ وہ
محور سیارگاں تیرے اثر میں نہیں


چشم ستارا شمار کشتہ صدا انتظار
دید کی کوئی نوید نجم سحر میں نہیں


ہم جو دکھاتے نہیں لالہ و گل کی طرح
یہ نہ سمجھنا کوئی داغ جگر میں نہیں


سبز قبائے چمن صرف فریب نظر
آس کی کونپل کسی شاخ شجر میں نہیں


ایک تجھی کو صباؔ کیوں ہے تھکن کا گلا
موجۂ گل اور ہوا کون سفر میں نہیں