دیوانگی سے کام لیا ہے کبھی کبھی

دیوانگی سے کام لیا ہے کبھی کبھی
دامن کسی کا تھام لیا ہے کبھی کبھی


کرتا رہا کسی کو بھلانے کی کوششیں
یوں دل سے انتقام لیا ہے کبھی کبھی


حد سے سوا جو بڑھنے لگیں بے قراریاں
ایسے میں ان کا نام لیا ہے کبھی کبھی


نظریں ملی ہوئی تھیں تبسم لبوں پہ تھا
ساقی سے یوں بھی جام لیا ہے کبھی کبھی


خود رو دیا کسی کو ہنسانے کے واسطے
مجبوریوں سے کام لیا ہے کبھی کبھی


شاید مری وفا اسے یاد آئی میرے بعد
اس نے بھی میرا نام لیا ہے کبھی کبھی


خود آگ دے کے اپنے نشیمن کو آپ ہی
بجلی سے انتقام لیا ہے کبھی کبھی


کام آ گئیں سعیدؔ کی مستانہ لغزشیں
اس کو کسی نے تھام لیا ہے کبھی کبھی