ہوئے بھی عشق میں رسوا تو احترام کے ساتھ

ہوئے بھی عشق میں رسوا تو احترام کے ساتھ
تمہارا نام بھی آیا ہمارے نام کے ساتھ


تمہاری بزم میں سب کا گزر ہے میرے سوا
خصوصیت ہے ضروری صلائے عام کے ساتھ


شکایتوں کا فسانہ ترے تبسم پر
تمام ہو گیا اک آہ ناتمام کے ساتھ


ہر اک فضا میں مسرت کو غم سے نسبت ہے
تری سحر کو ہے اک ربط میری شام کے ساتھ


فسردہ پھول ہیں کلیاں اداس ہیں ساری
بہار آئی ہے کس حسن انتظام کے ساتھ


تڑپ رہا ہے بہت دن سے ذوق بربادی
پھر آشیانہ بناتا ہوں اہتمام کے ساتھ


یہی زمانۂ نا قدر میرے بعد سعیدؔ
مجھے بھی یاد کرے گا مرے کلام کے ساتھ