اتنا ہی سہارا دل ناکام بہت ہے
اتنا ہی سہارا دل ناکام بہت ہے اب ان کا تصور ہی سر شام بہت ہے اب کوئی ضرورت ہے دوا کی نہ دعا کی جس حال میں ہوں میں مجھے آرام بہت ہے گریہ سے ہے آغاز عمل بزم جہاں میں انسان کو اندیشۂ انجام بہت ہے کم ظرف ہیں کرتے ہیں جو پینے سے تکلف ساقی مجھے یہ درد تہ جام بہت ہے ابھری نہیں دل میں ...