کیوں مصیبت میں ہوں مسرور تجھے کیا معلوم
کیوں مصیبت میں ہوں مسرور تجھے کیا معلوم
کیا محبت کے ہیں دستور تجھے کیا معلوم
فطرت حسن ہے یہ یہ ہے تقاضائے شباب
تو ہے کس واسطے مغرور تجھے کیا معلوم
باغباں کب کی بہار آئی بھی رخصت بھی ہوئی
میں قفس میں ہوں بدستور تجھے کیا معلوم
گردش چشم کی لذت کوئی مجھ سے پوچھے
وار اوچھا ہے کہ بھرپور تجھے کیا معلوم
نہ برا مان نشیمن کے بنانے والے
برق عادت سے ہے مجبور تجھے کیا معلوم
ساتھ دے گا تو کہاں تک مری بربادی کا
میری منزل ہے بہت دور تجھے کیا معلوم
کیوں نگاہوں سے ہے اس درجہ پریشان سعیدؔ
یہی رحمت کو ہے منظور تجھے کیا معلوم