شاعری

فضا میں چھائے ہوئے ہیں اداس سناٹے

فضا میں چھائے ہوئے ہیں اداس سناٹے ہوں جیسے ظلمت شب کا لباس سناٹے ترے خیال کی آہٹ نے سرد کر ڈالا سلگ رہے تھے ابھی آس پاس سناٹے خودی کے ننھے فرشتوں کو لوریاں دے کر جگا نہ دیں کہیں جسموں کی پیاس سناٹے اٹھاؤ سنگ صدا اور زور سے پھینکو بکھر ہی جائیں گے یہ بے قیاس سناٹے یہ اہل ظرف کی ...

مزید پڑھیے

بے حسی چہرے کی لہجے کی اداسی لے گیا

بے حسی چہرے کی لہجے کی اداسی لے گیا وہ مرے اندر کی ساری بد حواسی لے گیا فصل شعلوں کی اگانا چاہتا تھا شہر میں مانگ کر جو آگ کل مجھ سے ذرا سی لے گیا صبح کے اخبار کی سرخی نے چونکایا مگر رات کا اک خواب ساری بد حواسی لے گیا آج تو سورج بھی میرے بعد ہی جاگا سلیمؔ کون پھر گلدان کے سب پھول ...

مزید پڑھیے

دل غم روزگار سے نکلا

دل غم روزگار سے نکلا کس گھنے خار زار سے نکلا ہم سفر ہو گئے مہ و انجم میں جو اپنے حصار سے نکلا شور تھا لاٹھیوں کا سڑکوں پر سانپ گھر کی درار سے نکلا جس کو کانٹا سمجھ رہے تھے لوگ اس کا رشتہ بہار سے نکلا کر گیا منتشر نظام جہاں جو بھی ذرہ قطار سے نکلا ہو گیا بحر بیکراں وہ سلیمؔ جو ...

مزید پڑھیے

جو ترے دیکھنے سے نکلے ہیں

جو ترے دیکھنے سے نکلے ہیں وہ بھی دن کیا مزے سے نکلے ہیں وہ کہاں نذر جاں کریں اپنی جو پرندے دیے سے نکلے ہیں جو کسی سمت بھی نہیں جاتے ہم اسی راستے سے نکلے ہیں زیست کو پڑھ کے یہ ہوا روشن متن سب حاشیے سے نکلے ہیں سارے ارمان آندھیوں کے سلیمؔ میرے پر ٹوٹنے سے نکلے ہیں

مزید پڑھیے

تا حد نظر کوئی بھی دم ساز نہیں ہے

تا حد نظر کوئی بھی دم ساز نہیں ہے یا پھر مری چیخوں میں ہی آواز نہیں ہے ہنگامے ہیں اس درجہ بپا خلوت جاں میں اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے شاید میں اسی ایک کہانی کا ہوں کردار انجام ہے جس کا مگر آغاز نہیں ہے اللہ یہ کیا منزل ارزانیٔ جاں ہے قاتل ہیں ہر اک موڑ پہ دم ساز نہیں ...

مزید پڑھیے

نہ جادو ہوں نہ ٹونا ہو گیا ہوں

نہ جادو ہوں نہ ٹونا ہو گیا ہوں مجھے ہونا تھا ہونا ہو گیا ہوں انہیں پارس نہ کہہ دوں تو کہوں کیا جنہیں چھو کر میں سونا ہو گیا ہوں بڑھا ہے جب سے قد خواہش کا میری لگا ہے اور بونا ہو گیا ہوں وہ میرے دل سے اکثر کھیلتے ہیں زہے قسمت کھلونا ہو گیا ہوں وہ چل چل کر تمنا روندتے ہیں میں بچھ ...

مزید پڑھیے

تارے سارے رقص کریں گے چاند زمیں پر اترے گا

تارے سارے رقص کریں گے چاند زمیں پر اترے گا عکس مرے محبوب کا جب بھی جل کے اندر اترے گا ان نینوں میں سب کچھ کھویا دل ڈوبا اور ہوش گئے جن نینوں کی گہرائی میں ایک سمندر اترے گا شہر دل کے ہر رستے پر دیپ جلائے بیٹھا ہوں ان کی یادوں کا یہ لشکر میرے گھر پر اترے گا وہ آئے تو سارا آنگن ...

مزید پڑھیے

مجھ کو سزائے موت کا دھوکہ دیا گیا

مجھ کو سزائے موت کا دھوکہ دیا گیا میرا وجود مجھ میں ہی دفنا دیا گیا بولو تمہاری ریڑھ کی ہڈی کہاں گئی کیوں تم کو زندگی کا تماشہ دیا گیا آنکھوں کو میری سچ سے بچانے کی فکر میں ٹی وی کے اسکرین پہ چپکا دیا گیا سازش نہ جانے کس کی بڑی کامیاب ہے ہر شخص اپنے آپ میں بھٹکا دیا گیا لہجے ...

مزید پڑھیے

چراغوں سے ہوائیں لڑ رہی ہیں

چراغوں سے ہوائیں لڑ رہی ہیں کہ خود بچوں سے مائیں لڑ رہی ہیں نشیمن تو اجاڑے تھے ہوا نے شجر سے فاختائیں لڑ رہی ہیں نئی تہذیب کی بے رہ روی پر پرانی داشتائیں لڑ رہی ہیں برہنہ ہو گئے کردار سارے کہ آپس میں کتھائیں لڑ رہی ہیں جھگڑ کر ہو چکے ہیں دوست بچے ابھی تک مامتائیں لڑ رہی ہیں

مزید پڑھیے

شجر تو کب کا کٹ کے گر چکا ہے

شجر تو کب کا کٹ کے گر چکا ہے پرندہ شاخ سے لپٹا ہوا ہے سمندر ساحلوں سے پوچھتا ہے تمہارا شہر کتنا جاگتا ہے ہوا کے ہاتھ خالی ہو چکے ہیں یہاں ہر پیڑ ننگا ہو چکا ہے اب اس سے دوستی ممکن ہے میری وہ اپنے جسم کے باہر کھڑا ہے بہا کر لے گئیں موجیں گھروندا وہ بچہ کس لیے پھر ہنس رہا ہے

مزید پڑھیے
صفحہ 1011 سے 4657