چراغوں سے ہوائیں لڑ رہی ہیں

چراغوں سے ہوائیں لڑ رہی ہیں
کہ خود بچوں سے مائیں لڑ رہی ہیں


نشیمن تو اجاڑے تھے ہوا نے
شجر سے فاختائیں لڑ رہی ہیں


نئی تہذیب کی بے رہ روی پر
پرانی داشتائیں لڑ رہی ہیں


برہنہ ہو گئے کردار سارے
کہ آپس میں کتھائیں لڑ رہی ہیں


جھگڑ کر ہو چکے ہیں دوست بچے
ابھی تک مامتائیں لڑ رہی ہیں