میر تقی میر کے وحشت اور جنون کا تجربہ شاعری کی زبان میں

مشہور فلسفی اور تنقید نگار سورن کرکیگارڈ کا قول ہے: ’ شاعر ایک ایسا دکھی انسان ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے داخلی کرب اور تکلیف کا اظہار کرتا ہے تو اس کے غم شعر و نغمہ میں ڈھل جاتے ہیں۔‘

ایک ایسے ہی شاعر کا قصہ جس نے جنون اور وحشت کے تجربے کو دل سوز شاعری کی زبان میں بیان کیا۔
اسے عجب مسئلہ درپیش تھا ۔اک عجب سی وحشت ہمہ وقت اسے اپنے حصار میں لیے رہتی تھی ۔ ایک ویرانی سی تھی جو اسے ہر سو نظر آنے لگی تھی ۔ ایک گور اندھیرا تھا جو ہر شے کو رفتہ رفتہ نگلتا ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔۔اور۔۔۔ جب یہ وحشت ایک حد سے زیادہ بڑھنے لگتی تو وہ خوبرو پیکر ۔۔۔ وہ دلکش چہرہ ان مہیب تیرگیوں سے نمودار ہوتا اور دیکھنے ہی دیکھتے ہر شے پس منظر میں چلی جاتی اور وہ پری رخ ، ماہ رو ، مہہ جبیں سارے عالم پر چھا جاتی ۔۔درو دیوار فقط اسی کا نظارہ پیش کرتے ۔
چاند راتوں میں تو اس حال اور بھی ابتر ہو ہو جاتا ۔ جب چودھویں کا چاند اپنے جوبن پر ہوتا تو وہی دلکش چہرہ جو اس کی تاریکیوں کو ہمہ وقت جلا بخشتا رہتا جب اسے چار میں مسکراتا ہوا نظر آتا تو وہ اپنے رہے سہے حواس بھی کھو بیٹھتا۔کبھی وہ حسین پیکر اسے دور آسمان پر مسکراہٹیں پیش کرتا نظر آتا تو کبھی دھیرے دھیرے اپنی اور بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ۔ کبھی وہ حسینہ اس کے بالکل قریب بیٹھی ادائے ناز سے مسکراتی اور پیار جتاتی ہوئی ملتی تو کبھی اس سے خفا ہونے لگتی ۔۔۔ دونوں صورتوں میں وہ پاگلوں کی طرح نجانے جنوں کے عالم میں کیا کیا بولتا رہتا ۔۔۔
وہ ان دنوں اپنے والد کے ایک عقیدت مند کے ہاں مقیم تھا ۔ وہ خدا ترس آدمی اْس کی اس بگڑتی ہوئی حالت سے بہت پریشان ہوا ۔ چند حکیموں ،طبیبوں اور تعویذ گنڈے کرنے والے سیانوں سے مشورہ کیا ۔ علاج یہ تجویز ہوا کہ اسے چند دنوں کے لیے گوشہء تنہائی میں رکھا جائے تاکہ وہ اپنے اور ان صاحب کے لیے کسی طرح کی سبکی یا جگ ہنسائی کا موجب نہ بنے۔۔۔چار ماہ تک وہ اس کنج تنہائی پڑا اپنے آپ سے لڑتا رہا۔۔۔اور پھر ہولے ہولے اس کی طبیعت میں بہتری آنے لگی۔۔۔ وہ ان اکلاپے کے کربتاک پلوں کا سارا زہر قطرہ قطرہ بوند اپنے قلم کے ذریعے قرطاس پر منتقل کرتا رہتا۔۔۔ یہاں تک کہ وہ اپنا سارا جنوں، ساری وحشت کاغذ پر منتقل کر کے معمول کی زندگی کی طرف واپس لوٹنے لگا۔۔۔
 لیکن۔۔۔
  یہ چند ماہ اس کی ذات کی بجھی ہوئی راکھ کے ڈھیر میں چند چنگاریاں چھوڑ گئے جو حالات کی آندھیوں میں کبھی کبھار دوبارہ چمک جاتیں اور وہ جنوں میں نجانے کیا کیا کہہ جاتا۔۔۔ اس کی اس دھوپ چھاؤں طبیعت کی بدولت اسے بے دماغی اور بد دماغی کا طعنہ بھی دیتے جو وہ بسروچشم تسلیم بھی کر لیا کرتا تھا۔۔
ان وحشت زدہ کالی راتوں کی بھٹی میں جل کر کندن ہونے والے جنوں کی راہوں کے مسافر کو لوگ میر تقی میر کے نام سے جانتے ہیں۔اردو ادب کے طالب علم علموں کے لیے میر کی دیوانگی کا یہ قصہ ممکن ہے، علم میں ہونے کی وجہ سے زیادہ دلچسپی کا حامل نہ ہو لیکن وہ لوگ جو میر کو محض ایک درد اور دکھ کی کیفیات پر لکھنے والے ایک شاعر کے طور پر جانتے ہو اور میر تقی میر کی زندگی سے ذرا کم کم واقفیت رکھتے ہیں ان کے لیے میر کی زندگی کا یہ باب یقیناً بڑا دلچسپ ہو گا۔ میر نے اپنے جنوں کے اس تجربے کو اپنی مثنوی" خواب و خیال" میں بڑے دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔
مثال کے طور پر وہ اپنے دل کے قریب دلی کو چھوڑ کر جانے کے تمام اسباب و عوامل بیان کرنے کے بعد اپنے اس تجربہ جنوں کا بیان یوں شروع کرتے ہیں:
پس از قطع رہ لائے دلی میں بخت
بہت کھینچے یاں میں نے آزار سخت
جگر جور گردوں سے خوں ہو گیا
مجھے رکتے رکتے جنوں ہو گیا
ہوا ضبط سے مجھ کو ربط تمام
لگی رہنے وحشت مجھے صبح و شام
کبھو کف بلب مست رہنے لگا
کبھو سنگ در دست رہنے لگا
کبھو غرق بحر تحیر رہوں
کبھو سر بجیب تفکر رہوں
یہ وہم غلط کاریاں تک کھنچا
کہ کار جنوں آسماں تک کھنچا
نظر رات کو چاند پر گر پڑی
تو گویا کہ بجلی سی دل پر پڑی
مہ چار دہ کار آتش کرے
ڈروں یاں تلک میں کہ جی غش کرے
توہم کا بیٹھا جو نقش درست
لگی ہونے وسواس سے جان سست
نظر آئی اک شکل مہتاب میں
کمی آئی جس سے خورد خواب میں
مثنوی خواب و خیال مکمل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
میر تقی میر کے حالات زندگی پر طائرانہ نظر دوڑانے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ میر جب اس فیز سے گزرے تب ان کی عمر اٹھارہ سال کے لگ بھگ تھی اس سے قبل والد کی ناگہاں موت، سوتیلے بھائی کی بد سلوکی، مالی بدحالی اور بھرپور نوجوانی کی عمر میں عشق کے تجربے سے دوچار ہونا اور اس میں ناکامی کا سامنا ہونا ایسے حالات ہیں جو انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک شخص کو بھی توڑ دیتے ہیں۔۔۔اور میر تو پھر میر تھے۔۔۔جو درد کا استعارہ ہیں۔۔اور درد کے سوتے ہمیشہ گداز زمین سے پھوٹتے ہیں۔۔۔ ماہرین نفسیات ایسی کیفیت کو سائیکاٹک ڈپریشن (Psychotic Depression) کا نام دیتے ہیں ۔ جس کا میر نے اپنی شاعری کے ذریعے علاج کیا جسے نفسیات کی زبان میں آرٹ تھیراپی (Art Therapy) کہا جاتا ہے ۔
میر کے صحت یاب ہونے کے بعد بھی اس جنوں کے کچھ کچھ اثرات ان کی شخصیت میں آخر دم تک رہے ۔ بقول میر:

بے دماغی ، بے قراری ، بےکسی ، بے طاقتی
کیا جئیں وہ روگ جن کے جی کو یہ اکثر رہیں

متعلقہ عنوانات