بچوں کے لیے پیارے نبیﷺ کی سیرت: ہاتھیوں والا سال
پیارے بچوّ۔آپ نے مکہ شریف کا نام کئی بار سنا ہوگا اور اس پیارے شہر کو اکثر ٹی ،وی پر بھی دیکھا ہوگا۔یہ اس قدر پیارا شہر ہے کہ خود اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس شہر کی قسم کھائی ہے۔یہ شہر بیت اللہ یعنی اللہ کے گھر کی وجہ سے جسے کعبہ شریف بھی کہتے ہیں۔۔۔۔مشہور ہے۔
اور آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سوسال پہلے بھی اس گھر کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔اس زمانے میں ملک یمن کا حکمران ابرہہ تھا۔جس کواس گھر کی شہرت سے حسد پیدا ہوا۔اور آپ تو جانتے ہیں کہ حسد کی وجہ سے بڑی خرابیاں اور تباہیا ں ہوتی ہیں۔اس حکمران نے بھی ارادہ کرلیا کہ اس گھر کو تباہ کردیا جائے۔
چنانچہ یہ ارادہ لیے ہوئے وہ اپنی ساٹھ ہزار فوج کے ساتھ روانہ ہوا جس میں نو ہاتھی بھی شامل تھے۔اور مکہ شریف کے قریب پہنچ کر رک گیاتاکہ اس کی فوج ایک لمبے سفر کے بعد کچھ آرام کرلے۔اس کے سپاہیوں نے مکہ شریف کے سردار جناب عبدالمطلب کے ان اونٹوں کو پکڑلیا جو وہاں پھر رہے تھے۔ان کا ارادہ یہ تھا کہ انہیں ذبح کر کے کھاجائیں۔لیکن جب اس کی خبر سردار عبدالمطلب کو ملی تو وہ ابرہہ کے پاس پہنچے اور اس سے ان اونٹوں کو واپس کرنے کیلئے کہا مگر ابرہہ حیران ہوکر بولا۔
’’ میں تو تمہارے کعبہ کو گرانے آیا ہوں اور تم اس کے متعلق بات کرنے کی بجائے مجھ سے اونٹوں کی واپسی کے لیے کہہ رہے ہو۔‘‘
’’ اے بادشاہ میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں۔اور انہیں کے بارے میں تم سے درخواست کرتا ہوں۔رہا کعبہ تو اس کا مالک اللہ ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔‘‘
ابرہہ نے بڑے تکبر سے کہا
’’تمہارا اللہ بھی اس کو مجھ سے نہ بچا سکے گا۔‘‘
سردار مکہ نے اس کی طرف بغور دیکھا اور بولے ۔
’’ تم جانو ۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ جانے‘‘
اور اس کے بعد اپنے اونٹ لے کر واپس مکہ شریف میں آگئے۔
دیکھو بچوّ ۔تکبر کی حد ہوگئی ہے۔ابرہہ اپنے آپ کو اللہ پاک سے بھی زور والا سمجھ رہا تھا۔حالانکہ اللہ سے بڑا کوئی بھی نہیں ہے۔
گھر واپس آکر سردار عبدالمطلب بڑے بڑے آدمیوں کو ساتھ لئے حرم شریف میں داخل ہوئے اور کعبہ کا غلاف اٹھا کر دعا کی اور بلند آواز سے کہا۔
’’ خدایا ۔بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت کر
اس گھر کا دشمن تیرا دشمن ہے
اپنی بستی کو تباہ کرنے سے ان کو روک دے‘‘
پیارے بچوّ۔ دعا کرنے کے بعد یہ عزت والے لوگ شہر چھوڑ کر پہاڑوں میں چھپ گئے تاکہ ابرہہ کے ظلم وستم سے محفوظ رہیں۔
دوسرے دن سورج نکلنے کے بعد ابرہہ نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ کعبہ شریف گرانے کے لیے آگے بڑھو۔چنانچہ فوج اس طرح روانہ ہوئی کہ اس کے آگے آگے ہاتھی تھےجن میں سے ایک پر ابرہہ سوار تھا۔مکہ کے لوگ خوف کے مارے پہاڑوں پر بیٹھے فوج کو دیکھ رہے تھے۔وہ کمزور تھے اس لیے فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھےلیکن اس گھر یعنی کعبہ شریف کا مالک ۔اللہ پاک۔۔۔ تو کمزور نہیں ہے۔اس کی قدرت ہر چیز اور ہر تجویز پر غالب ہے۔جونہی یہ فوج ذرا آگے بڑھی تو آسمان پردیکھتے ہی دیکھتے ابابیلوں کے جھنڈ نظر آنے لگے آپ نے ابابیل تو دیکھا ہوگا یہ ایک چھوٹا سا پرندہ ہوتا ہے۔اللہ نے ان ابابیلوں کا اپنا لشکر بناکر ابرہہ کی فوج کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔
پیارے بچوّ ۔ اس دلچسپ مقابلے پر ذرا غور کرو ایک طرف ابرہہ کی ساٹھ ہزار فوج اور نو ہاتھی تھے اور دوسری طرف ابابیلوں کا لشکر ۔ لیکن ہوا یہ کہ ابابیلوں نے اس فوج پر سنگریزوں (پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں) کی بارش برسادی۔جنہیں وہ اپنے پنجوں اور چونچ میں پکڑ کر لائے تھے۔اللہ پاک کی قدرت سے پتھر کے ٹکڑے ابرہہ کی فوج پر بم بن کر گرے اور تھوڑی ہی دیر میں یہ سارا لشکر خاک و خون میں تڑپنے لگا۔خود ابرہہ کا جسم یہ پتھر لگنے سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گرپڑا۔
ابرہہ جو ایک روز پہلے سردار عبدالمطلب سے کہہ رہا تھا کہ اس گھر کو میرے ہاتھ سے تمہارا اللہ بھی نہیں بچا سکتا۔آج اس گھر کے مالک ۔ اللہ پاک ۔۔ کے بھیجے ہوئے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے پتھراؤ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر ختم ہوگیا اور اللہ پاک کا گھر سلامت رہا۔اللہ پاک نے یہ داستان قرآن پاک میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردی جو سورۃالفیل کے نام سے تیسویں پارے میں ہے تاکہ لوگ قیامت تک یہ نہ بھولنے پائیں کہ ہر متکبر ّ کا یہی انجام ہوتا ہے اور اللہ ہر قدرت کا مالک ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔
یہ واقعہ مارچ 571 عیسوی میں پیش آیا۔یہ سال عام الفیل (ہاتھیوں والا سال) کے نام سے مشہور ہے۔