پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کا سب سے بڑا کارخانہ

چینی کمپنی گاز آٹو نے پاکستان میں پورٹ قاسم کراچی کے قریب الیکٹرک گاڑیوں (ای وی) کی تیاری کا ایک پلانٹ لگانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ سرمایہ کاری سی پیک منصوبے کے تحت کی جارہی ہے۔ پاکستان میں وسیع پیمانے پر یہ پہلا بڑا پروجیکٹ ہے جو ایک ہزار ایکڑ پر مشتمل ہوگا۔  کیا اس منصوبے سے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوپائے گا؟ دنیا میں الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں کون سی ہیں؟ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کا کیا مستقبل ہے؟ آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے اس تازہ خبر کے بارے میں بتاتے ہیں:

دی نیوز اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنے دیرینہ دوست چین کے تعاون سے الیکٹرک کاروں کی دنیا میں داخل ہونے جا رہا ہے۔ چین سے تعلق رکھنے والی کمپنی گاز آٹو گروپ(Gauss Auto Group ) نے 20 مئی 2022 کو اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان میں پورٹ قاسم کے قریب ایک ہزار یونٹس کی پیداوار کا حامل پلانٹ لگائیں گے۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ پوری دنیا میں الیکٹرک کاروں کے فروغ اور پیداوار میں لیڈنگ کمپنی بننے جارہی ہے۔ اسی سلسلے میں پاکستان میں بھی سرمایہ کاری کرنے کی خواہاں ہے۔

Description: C:\Users\KAMRAN\AppData\Local\Microsoft\Windows\INetCache\Content.Word\APP66-190522Islamabad-696x318.jpg

یہ پروجیکٹ عبدالکریم ڈھڈی (اے کے ڈی) گروپ اور گاز آٹو کا جوائنٹ وینچر ہے۔ چینی کمپنی کے وفد جس کی سربراہی اس کمپنی کے سی ای او چین فنگ (Chen Feng) کر رہے تھے،  پاکستانی وزیر برائے سرمایہ کاری چوہدری سالک حسین سے ملا اور کمپنی کے نیک ارادوں کے بارے میں پاکستانی حکام کو آگاہ کیا۔

دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کا سفر کب شروع ہوا؟

پہیے کا سفر

پہیہ انسانی تاریخ کی اولین ایجاد مانی جاتی ہے ۔ اس ایک ایجاد نے انسانی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا۔ آمد و رفت اور نقل و حمل کے دیرینہ مسائل صرف ایک ایجاد نے حل کر دیے ۔دوریاں سمٹنے لگیں اور کرہ ارض پر پر ٹکڑوں میں بکھری ہوئی انسانی آبادیوں کو باہم مربوط کر دیا ۔ سائنس میں مزید ترقی ہوئی تو ذرائع آمد و رفت کو بھی پَر لگ گئے ۔ کوئلہ، بھاپ، پٹرول اور سی این جی کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا ۔ جیسے جیسے انسان اپنی سہولت کے لیے نئے سے نئے ذرائع ایجاد کرتا گیا ویسے ویسے ہی توانائی کے وسائل پر دباؤ بھی بڑھتا گیا۔

تیل کا متبادل کیا ہے؟

تیل کی طلب میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ دنیا کی سیاست اور تجارت تیل کے گرد گھومنے لگی ۔ تیل پر قبضہ جمانے کے لیے جنگیں بھی لڑی گئیں اور معاہدے بھی کیے گئے۔   تیل بین الاقوامی تعلقات کا مرکز و محور بنتا چلا گیا ۔ تیل اور گیس کے اس بے جا استعمال سے ماحولیاتی مسائل نے بھی جنم لینا شروع کر دیا ۔ گلوبل وارمنگ ، تیزابی بارشیں اور نجانے کیا کچھ ۔ سائنسدانوں کا اندیشہ ہے کہ صنعت و حرفت اور تجارت میں تیل کے اس بے دریغ بڑھتے ہوئے استعمال سے زیر زمین تیل کے ذخائر میں تیزی سے کمی آ رہی ہے ۔ قریب ہے کہ یہ وسائل ختم ہو جائیں ۔ اس لیے اب پوری دنیا توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے میں جتی ہوئی ہے۔الف یار پر اسی موضوع پر ایک تحقیقی تحریر شائع ہوئی۔ اسے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

دنیا میں الیکٹرک گاڑی کا سفر کب شروع ہوا؟

الیکٹرک موٹرز پر تحقیقات "رکازی ایندھن (فوسل فیولز) کے متبادل ذرائع کی تلاش" کی ایک کڑی ہے۔ بجلی سے چلنے والی کاروں کے لیے تجربات تو انیسویں صدی کی آخری دھائی سے جاری تھے لیکن اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل اور ایندھن کی کھپت نے اس ریسرچ کو مزید انگیخت دی۔

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جب دنیا کی بہترین کاریں بنانے والی کمپنیوں کی توجہ اس جانب ہوئی تو اس میدان میں بھی ایک مقابلے کی فضا پیدا ہو گئی ۔ 2010 نسان لیف ( Nissan Leaf ) نے پہلی بغیر ٹیل پائپ کے کار متعارف کروائی جو امریکہ اور جاپان میں کافی مقبول ہوئی ۔ 2013 کے بعد اس کار کو آسٹریلیا ، کینیڈا اور 17 یورپی ممالک میں بھی پہنچا دیا گیا۔

اس کے بعد اس میں میں ٹیسلا(Tesla) اور نسان کی جنگ شروع ہوگئی ۔ 2020 میں ٹیسلا  بالآخر اس میدان میں نسان لیف کو پیچھے چھوڑنے میں کامیاب ہو گئی ۔ ٹیسلا ماڈل تھری (Tesla Model 3) پانچ لاکھ یونٹس کی فروخت کے بعد بیسٹ سیلنگ الیکٹرک کار بن گئی ۔ 2021 میں یہ کار ایک ملین سیل کا سنگ میل بھی عبور کر گئی۔

چین بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہا۔ 2018 میں اکیلے چین میں باقی ساری دنیا کی مجموعی تعداد سے زیادہ الیکٹرک کاروں کی فروخت ہوئی۔ چین کی حکومت نے 60 بلین ڈالر اس ابھرتی ہوئی مارکیٹ میں سرکاری کی تاکید گیسولین پاورڈ کاروں سے ماحول دوست الیکٹرک کاروں پر آمد و رفت کو فروغ دیا جاسکے ۔ اس مقصد کے لیے گورنمنٹ نے ایک اور اقدام کیا کہ گیسولین پاورڈ کاروں کے لیے لائیسنسز کی تعداد محدود کر دی تاکہ صارفین جلد سے جلد الیکٹرک کاروں کے استعمال کی طرف راغب ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران الیکٹرک کاروں کی طلب میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی مقبولیت

حالیہ برسوں کے دوران تیل کی قیمتوں میں اضافے سے پاکستان میں تیل کے متبادل ذرائع استعمال کرنے کی طرف خاصی توجہ دی۔ تیل کے بعد سی این جی سے چلنے والی گاڑیوں کی کثیر تعداد ہمیں سڑکوں پر نظر آنا شروع ہو گئی۔ لیکن گیس کی صنعت کے لیے یہ تجربہ بھی بھیانک ثابت ہوا۔ دل چسپ پہلو یہ ہے کہ جس ٹیکنالوجی کو دنیا ترک کررہی تھی ہم نے اسے اپنانے کی غلطی کر بیٹھے۔ سی این جی کی وجہ سے گیس کے بحران نے جنم لیا۔جلد ہی سی این جی کی مقبولیت میں کمی آگئی اور پاکستان بھی ترقی یافتہ دنیا کی طرح الیکٹرک گاڑیوں کی طرف متوجہ ہوا۔

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے اقدامات: ٹائم لائن

1۔ 2016 میں سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان میں گاڑیوں کی نئے برانڈز کی حوصلہ افزائی کے لیے آٹو موٹیو ڈویلپمنٹ پالسی 2016-2025 کا اجرا کیا گیا۔

2۔ 2018 کے بجٹ میں الیکٹرک گاڑیوں، الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشن پر کسٹم ڈیوٹی اور ریگولر ڈیوٹی میں خاطر خواہ رعایت اور کمی کا اعلان کیا۔

3۔ 2019 میں وفاقی کابینہ نے پاکستان کی پہلی الیکٹرک وہیکل پالیسی 2020-2025 کی منظوری دی۔ اس پالیسی میں الیکٹرک گاڑیوں کے بارے میں ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں کمی، رجسٹریشن فیس کی معافی اور سالانہ ٹیکس یا ڈیوٹی کو بھی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس پالیسی کو اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔

Paksitan's first ever EV Auto Policy 2020-2025 pdf

4۔ نومبر 2019 میں وفاقی ادارہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور ایئر لفٹ کمپنی کے درمیان الیکٹرک بسیں متعارف کروانے کا معاہدہ ہوا۔

5۔ 8 جولائی 2021 کو اس وقت وزیر اعطؐ عمران خان نے بجلی سے چلنے والے موٹرسائیکل کا افتتاح کیا۔ جسے جولٹا الیکٹرک نے تیار کیا۔ جولٹا الیکٹرک پاکستان میں بجلی سے چلنے والے موٹر سائیکل بنانے والے واحد کمپنی ہے۔

6۔ پاکستان میں اب تک قراقرم موٹرز، رحمت گروپ، ماسٹر موٹرز اور الحج موٹرز نے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کو متعارف کروانے کے لیے اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کا مستقبل

امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی وطن عزیز بھی اس الیکٹرک کاروں کی دوڑ میں شامل ہو جائے گا جس ناصرف تیل اور گیس پر بوجھ کم ہو گا بلکہ ماحولیاتی آلودگی جو ہمارے بڑے شہروں کا ایک بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے اس میں بھی کمی آئے گی۔ نئے صنعتی یونٹس کے قیام سے مقامی لوگوں کے لیے زور گار کے نئے دریچے بھی وا ہوں گے۔

متعلقہ عنوانات