کیا دنیا سے تیل ختم ہونے والا ہے؟

پاکستان میں تیل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں اور ابھی ان میں مزید اضافہ بھی متوقع ہے۔ ایسی صورت حال میں ہر شخص کی خواہش ہے کہ کاش اس کا کوئی متبادل ذریعہ توانائی میسر آ جائے۔ بجلی کی کمی کو شمسی توانائی (سولر انرجی) کے ذریعے  پورا کرنے کے لیے گھریلو سطح پر سولر پلیٹوں کا استعمال خاصا عام ہو چکا ہے۔ تاہم فی الحال پٹرول کا کوئی متبادل نظر نہیں آ رہا۔ ایسی صورت حال میں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دنیا میں زیر زمین تیل (یعنی رکازی ایندھن) کا ذخیرہ ختم ہو جائے گا تو پھر توانائی کی یہ ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی۔ 

مشہور دانشورجیمز کینٹن نے کہا تھا :

"پتھروں کا دور (The Stone Age)اس لیے ختم نہیں ہوا  کہ پتھر ختم ہو گئے تھے۔اسی طرح تیل کے دور کا اختتام بھی اس لیے نہیں ہو گا کہ تیل ختم ہو جائے گا، بلکہ اس لیے ہو گا کہ ہم جلد ہی تیل کا بہتر متبادل ڈھونڈ نکالیں گے۔"

دنیا بھر میں کتنا تیل استعمال ہورہا ہے؟          

آج پوری دنیا رکازی ایندھن (fossil fuel) کی کسی نہ کسی شکل (یعنی تیل، قدرتی گیس اور کوئلہ وغیرہ) پر انحصار کر رہی ہے۔ اس قت دنیا بھر میں تقریباََ 25 ٹریلین واٹ توانائی استعمال ہو رہی ہے۔ اس توانائی کی 33 فیصد مقدار تیل سے، 25 فیصد کوئلے سے، 20 فیصد گیس سے، 7 فیصد نیوکلیائی توانائی سے، 14 فیصد ہائیڈرو الیکٹرک  اور بائیو ماس سے اورمحض ایک فیصد شمسی اور قابل تجدید (renewable) ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ رکازی ایندھن کے بغیر دنیا کی معیشت جمود کا شکار ہو سکتی ہے۔

آخرتیل ہی کیوں؟

ایک امریکی دانشور نے کہا تھا کہ تیل، تاریخ کا سب سے بڑا انعام ہے جو انسان کو حاصل ہوا۔ غور کیجئے تو یہ بات کچھ غلط بھی نہیں۔ عمومی درجہ حرارت پر سیال حالت میں دستیاب، زمین کے نیچے وافر ذخائر، بہترین ایندھن، ایندھن کے علاوہ دوسرے استعمال بہت کم، نکالنے کے لئے کم توانائی درکار، جلانے پر زیادہ توانائی کاحاصل ہونااور خاصی حد تک محفوظ بھی۔یہ تمام خوبیاں تیل کے علاوہ کسی ایندھن میں نہیں پائی جاتیں۔  

ہمارے لوگ آئل لابی سے بہت خوفزدہ رہتے ہیں لیکن اگر تیل کےپیچھے  اتنا سرمایہ اور اتنی طاقتور لابیاں اور ملک ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تیل میں کچھ ایسی خوبیاں بھی ہیں جو اتنے بڑے سرمایہ داروں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ متبادل ایندھن کے حصول اور تیل کی محتاجی سے نجات کی خواہش بہت پرانی ہے۔ جرمنوں نے دوسری جنگ عظیم میں اس مقصد کے لئے بھرپور کوشش کی تھی لیکن جنگی حالات کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔

تیل کب تک ختم ہوسکے گا؟

ایم کنگ ہیوبرٹ وہ پہلا شخص تھا جس نے تیل کے دور کے اختتام کو بہت پہلے دیکھ لیا تھا۔ وہ شیل آئل کمپنی میں پیٹرول انجینئر تھا۔ 1956 میں ہیوبرٹ نے امریکن پٹرولیم انسٹیٹیوٹ میں اپنی ایک تقریر میں ایک تشویش ناک پیش گوئی کہ جسے اس وقت دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس نے پیش گوئی کی کہ امریکہ کے تیل کے ذخائر اتنی تیزی سے کم ہو رہے ہیں کہ عنقریب ان کا 50 فیصد زمین سے نکال لیا جائے گا جس سے امریکہ کی تنزلی کا دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ دنیا بھر میں تیل کی کھپت میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ چند عشروں میں تیل کے ذخائر ختم ہو سکتے ہیں۔اگر چہ اس کی یہ پیش گوئی درست ثابت نہیں ہوئی اور دنیا بھر میں تیل کے مسلسل نئے ذخائر دریافت ہوتے  رہے ہیں ، تاہم اس کے استعمال میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین اس صورت حال پر زیادہ خوش نہیں ہیں  ۔ امریکہ جیسا ملک اپنی تیل کی ضروریات کا 60 فیصدباہر سے منگوا رہا ہے۔سعودی عرب میں تیل کے 267 ارب بیرل کے ذخائر موجود ہیں، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ پورا ملک ہی زیر زمین موجود تیل کی سطح پر تیر رہا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں توانائی کا ستعمال بہت زیادہ ہے اور یہ تمام توانائی تیل سے ہی حاصل کی جاتی ہے۔ اگرچہ تیل کے مجموعی ذخائر کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے  کہ ہم آئندہ چند عشروں تک تیل کی قلت کا شکار نہیں ہوں گے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تیل کے یہ ذخائر بہرحال ختم ہو جائیں گے کیونکہ دنیا بھر کی صنعتوں میں اس کا بے دریغ استعمال جا ری ہے۔

توانائی کے ماہرین کے مطابق، ہم تیل کے ذخائر ڈھونڈنے اور اسے نکالنے کی نئی ٹیکنالوجی بنا رہے ہیں تاہم اس تیل کی صفائی (ریفائننگ) کے اخراجات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مثلا کینیڈا میں تار کول ملی ریت کے ڈھیر (tar sand)   کے وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن اسے نکالنے اور صاف کرنے پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے۔ امریکہ میں کوئلے کے اتنے ذخائر موجود ہیں کہ 300 سال تک استعمال کئے جا سکتے ہیں تاہم اس کے استعمال میں قانونی رکاوٹیں حائل ہیں۔ کیونکہ کوئلے کے استعمال سے آلودگی بڑھنے کا بہت خطرہ ہے۔ چین اور پاکستان میں بھی کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں تاہم یہاں بھی آلودگی کے اضافے کا مسئلہ آڑے آ رہا ہے۔نیز یہ کہ تیل کی اوسط قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بات دنیا کی معیشت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ اکیسویں صدی میں مسلسل ترقی کا انحصار سستے تیل کی مسلسل دستیابی پر ہے ۔اگر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان مسلسل جاری رہتا ہے تو اس سے دنیا بھر میں خوراک کی دستیابی اور آلودگی پر قابو پانے میں بہت مشکلات پیدا ہوں گی۔ چین، پاکستان اور بھارت میں متوسط طبقے  کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور تیل کی مانگ بہت تیزی سے بڑھی ہے۔

برقی توانائی اور رکازی ایندھن میں مقابلہ

1900 کی دہائی میں، ہنری فورڈ اور تھامس ایڈیسن نامی دو دوستوں نے اس بات پر  شرط لگائی کہ مستقبل کی گاڑیوں میں، توانائی کی کونسی شکل زیادہ مفید ثابت ہو گی؟  ہنری فورڈ کا کہنا تھا کہ مستقبل میں کوئلے کی بجائے تیل استعمال ہو گا ، یعنی سٹیم انجن کی بجائے احتراقی انجن (combustion engine) استعمال ہو گا۔ تھامس ایڈیسن کا کہنا تھا کہ الیکٹرک کاریں زیادہ استعمال ہوں گی۔ 

یہ ایک مفید شرط تھی اور دنیا کی معیشت پراس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔کچھ عرصے کے لئے ایسا لگا کہ ایڈیسن شرط جیت جائے گا  کیونکہ آئل  کا حصول بہت مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ تاہم جلد ہی مشرق وسطیٰ اور دیگر علاقوں میں سستے تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہو گئے اور جلد ہی ہنری فورڈ کامیابی کی طرف گامزن ہو گیا۔ سستے تیل کی دستیابی کے بعد، دنیا کی ترقی کو گویا پر لگ گئے۔ بیٹریاں کبھی بھی پٹرول کا مقابلہ نہیں کر سکیں۔آج بھی پیٹرول میں ، الیکٹرک بیٹری کی نسبت 40 گنا زیادہ توانائی موجود ہوتی ہے۔ تاہم  اب یہ رجحان آہستگی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے۔ شرط  کے 100 سال بعد، ایسا لگنے لگا ہے کہ مستقبل میں شاید ایڈیسن شرط جیت جائے۔

آخر تیل کا متبادل کیا ہوگا؟

صنعتی ماہرین کے سامنے جب بھی یہ سوال رکھا جاتا ہے کہ تیل کا متبادل کیا ہو گا،  تو ان کے پاس اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہوتا۔ مستقبل قریب میں،رکازی ایندھن کا کوئی فوری متبادل موجود نہیں ہے۔نیز یہ کہ مستقبل میں توانائی کی کوئی ایک شکل غلبہ نہیں پا سکے گی بلکہ وہ سب مل کر توانائی کی ضروریات پوری کریں گی۔ تاہم اس سوال کا ایک ممکنہ جواب شاید  سولر / ہائیڈروجن پاور ہے۔یعنی قابل تجدید ذرائع توانائی (renewable) مثلاََ سولر پاور، وِنڈ پاور، ہائیڈرو الیکٹرک پاور اور ہائیڈروجن پاور وغیرہ مل کر توانائی کی ضروریات کو پورا کریں گی۔ موجودہ دور میں، سولر سیلز سے پیدا ہونے والی بجلی کی اوسط قیمت، کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی اوسط قیمت سے خاصی زیادہ ہے۔ تاہم سولر /ہائیڈروجن  ٹیکنالوجی میں ہونے والی مسلسل پیش رفت کی بدولت، اس کی لاگت میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔ جبکہ رکازی ایندھن کی لاگت میں بہرحال آہستگی سے  اضافہ ہو رہا ہے۔اندازہ ہے کہ آئندہ 10 سے 15 سال میں یہ دونوں باہم مد مقابل ہوں گی۔

 

متعلقہ عنوانات