عید الفطر : خوشیاں بانٹنے کا دن
اسلام کو اگر قربانی کا دین کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ اسلام تسلیم و رضا کا دوسرا نام ہے۔ اسلام ہمہ وقت ہر گھڑی اس بات کا اقرار کرنے اور اس کا اپنے قول و فعل سے اظہار کرنے کا نام ہے کہ
ع "سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں"
جب انسان لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے تو وہ اپنے رب کی رضا کے بدلے اپنی مرضی ارادے اور اختیار کا سودا کرتا ہے۔ اپنی خواہش اور چاہت کو اپنے رب کی رضا کے تابع کرنا ہی اصل دین ہے۔
نظیر اکبر الہ آبادی نے اس بات کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
جو فقر میں پورے ہیں وہ ہر حال میں خوش ہیں
ہر کام میں ہر دام میں ہر جال میں خوش ہیں
گر مال دیا یار نے تو مال میں خوش ہیں
بے زر جو کیا تو اسی احوال میں خوش ہیں
افلاس میں ادبار میں اقبال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں
اسلام نے خوشی کو تسلیم و رضا کے ساتھ مشروط کیا ہے۔قرآن حکیم میں جابجا ہمیں اس حقیقت کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے نفس مطمئنہ! لوٹ اپنے رب کی طرف اس حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہوگیا اور تو اس سے راضی ہوگیا۔"
(سورہ الفجر - 27 )
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
"ہاں جس نے اللہ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا وہ محسن ہے اور اس کے لیے اپنے رب کی طرف سے اجر ہے اور اس کے لیے نہ کچھ خوف ہے اور نہ کوئی غم "
(سورہ البقرہ۔112)
گویا تسلیم و رضا انسان کو ہر قسم کے خوف اور غم سے آزاد کرتی ہے. بندہ مومن کو اپنی مرضی کو رب کی مرضی پر قربان کرنے کا صلہ یہ ملتا ہے کہ وہ ہر وقت ہر حال میں خوش و خرم رہتا ہے ۔ نہ فکر فردا نہ غم ماضی ۔۔۔ جیسا کہ اقبال فرماتے ہیں:
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست
ما امینیم ایں متاعِ مصطفٰی است
یعنی "فقر تو ذوق و شوق و تسلیم و رضا کا راستہ ہے اور درحقیقت یہی وہ متائے سرکار دو عالم ہے جس کے ہم وارث ہیں" ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ہر رکن ہر عبادت اور ہر ریاضت میں
بار بار ہمیں تسلیم و رضا اور قربانی کی ترغیب دی گئی ہے۔
کسی قوم کے تہوار اس کی پہچان ہوا کرتے ہیں۔ اگر ہم اسلامی تہواروں پر نظر دوڑائیں تو عیدالفطر اور عید الاضحی کے تہوار ان میں سرفہرست نظر آتے ہیں۔ جو تمام مکاتب فکر مانتے اور مناتے ہیں۔عیدالاضحیٰ تو اول تا آخر ہے ہی قربانی۔۔۔ جس کی پہچان ہی قربانی ہے اور اس کی جان ہی قربانی ہے ۔۔۔ لیکن اگر ہم عید الفطر پر بھی غور کریں تو اس تہوار میں بھی بڑی خوبصورتی اور حکمت کے ساتھ خلاقِ عظیم نے قربانی کے جذبے کو انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑ دیا ہے۔ عید الفطر کا تہوار رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے اختتام پر آتا ہے۔
انسان ماہِ مقدس میں دن رات اپنے رب رب تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی قربتوں سے محظوظ ہوتا ہے۔ اسے ہر روز بوقتِ افطار ایک فرحت نصیب ہوتی ہے۔ ہر رات وہ قیام الل٘یل کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ گویا ماہ صیام تمام کا تمام
ایک جنت نظیر ماحول لئے ہوئے ہوتا ہے ۔ عید الفطر کی خبر ہی اس پیارے مہمان کی رخصتی کی خبر کے ساتھ آتی ہے۔ عجب خوشی اور غم کا سنگم ہوتا ہے ان لمحات میں بھی ۔گویا عید کے دن سب سے پہلی قربانی اللہ تعالی کی رضا کے لئے اس پیارے مہمان سے جدائی کو صبر و شکر کے ساتھ سہہ لینا ہوتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو رمضان بھی اپنی اصل میں قربانی ہی کا دوسرا نام ہے ۔ اپنی خواہشات نفس کی قربانی۔۔۔ بھوک پیاس برداشت کرنے کی قربانی۔۔۔ صدقہ و خیرات کی قربانی۔۔۔ راتوں کی نیند کی قربانی۔۔۔ رمضان کا ہر پل ہر گھڑی قربانی ہی تو ہے!
پورا ایک ماہ ان تمام قربانیوں کی تربیت کے بعد عید کے دن کو بھی صدقہ فطر کے ساتھ مشروط کر دیا گیا. کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ صدقہ فطر ادا کیے بغیر عید کی نماز بھی ادا کرے. اس میں یہ درس ہے کہ اصل خوشی، اصل مسرت اور اصل سرشاری قربانی ہی میں مضمر ہے اور یہ کہ وہ خوشی اور وہ مسرت جائز ہی نہیں بندہ مومن کے لیے۔۔۔ جس کے لیے اس نے کوئی قربانی نہ دی ہو ۔
کلمہ کیا ہے ۔۔۔فکری قربانی کا نام ہے۔۔ نماز کیا ہے۔۔ مصروف ترین وقت کی قربانی کا نام ہے۔۔ روزہ کیا ہے۔۔۔ بدنی اور نفسانی قربانی کا نام ہے۔۔۔ زکات اور حج کیا ہیں۔۔۔ مالی قربانی کے نام ہیں ۔
غرض سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کی عظیم قربانی کی یاد سے شروع ہونے والے اور جدالانبیاء حضرت ابرہیم علیہ السلام کے تذکرے پر ختم ہونے والے اسلامی سال کا لمحہ لمحہ ایثار ،قربانی اور تسلیم ورضا سے عبارت ہے ۔۔ فقط ضرورت اس حقیقت کے ادراک کی ہے ۔