آدھی رات کا منتر
یہ سایہ تو میرے ہی اندر سے نکل کر بھاگ رہا ہے مائی تم یہ کیا چھنکاتی ہو آدھا بھائی جاگ رہا ہے
یہ سایہ تو میرے ہی اندر سے نکل کر بھاگ رہا ہے مائی تم یہ کیا چھنکاتی ہو آدھا بھائی جاگ رہا ہے
دنیا کی مٹی سونا اگلتی ہے اور مٹی کا سونا موت کا زیور بنتا ہے
زندگی ڈرامے سے نہیں بنتی ڈراما زندگی سے بنتا ہے
اس نے اپنی سوندھی سوندھی مٹی گوندھی تھی اور عجب سرشاری سے پیار کے چاک پہ رکھ دی تھی میں اپنے دونوں ہاتھوں کی پوروں میں جاگ اٹھا تھا
سنبھل کر چل بہت گہرا اندھیرا ہے تمہیں غاروں میں ایسا غار کم ہی مل سکے گا یہاں دھرتی نہیں کچھ آسماں سا ہے درخت اس نیلی چھت کے ساتھ یوں چپکے ہیں جیسے یہ اسی امبر کا حصہ ہوں کئی دن سے یہ سب نیلے درخت اس آسماں سے اگ رہے ہیں ابھی میں تم سے کیا کہنے لگا تھا سنبھل کر ہاں مجھے کہنا تھا کہ اس ...
یاد نہیں کیا بھرے پرے بازار سے جب میں خالی خالی لوٹ آیا تھا اور اک پھول تیرے چمکتے ہاتھ پہ رکھ کر میں نے کہا تھا تیری پسند کے رنگ کا کپڑا مل نہ سکے تو میرے کوٹ کی جیب میں رکھے نوٹ کی قیمت گر جاتی ہے
چڑیا نے تو سوچی تھی اک اونچی پرواز لیکن ظالم باز
ریت ہمارے تلوے بھونتی ہے اور آنکھیں لال کرتی ہے جھیل پر کچھ نظر نہیں آتا چاند ہمارے خوابوں سے نکل کر سرحدوں پر ڈھیر ہو گیا ہے کنارے پر گرے بیج آنکھیں کھولتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے لئے موند لیتے ہیں زعفران کا کھیت اس بار بھی بار آور نہ ہوا کون کریدے مٹی اور اپنا نصیب تلاش کرے زمین کو ...
مگر ہم نے دیکھا کہ ویران گھاٹی کا دامن بھرا تھا بہت ساری چیزیں ہواؤں کے پاؤں سے الجھی ہوئی تھیں دعاؤں کی خالی اور اوندھی پڑی شیشیاں اور ٹوٹی ہوئی پنجگانہ نمازیں نوافل و صیام کی سخت ڈھالیں مساجد کے رستوں میں توڑی گئی جوتیوں اور قدم در قدم نیکیوں کی قطاریں وظائف و درود و مناجات ...
دو طرح کے ہیں بدن دو طرح کے پیرہن اک سجل بے رنگ ریشم سا لباس جس میں لپٹا میرا فن جس میں پلتے ہیں خیال اک طرح کا پیرہن تازہ اجلے سوت کا جس میں رکھا ہے بدن اور میرے خط و خال پیرہن اوپر کا اترے تو پہن لوں میں کسی دیوار کو یا گماں کو چھوڑ کر میں یقیں کو اوڑھ لوں پیرہن اندر کا اترے اور ہوں ...