آدھی رات کا منتر
یہ سایہ تو میرے ہی اندر سے نکل کر بھاگ رہا ہے مائی تم یہ کیا چھنکاتی ہو آدھا بھائی جاگ رہا ہے
یہ سایہ تو میرے ہی اندر سے نکل کر بھاگ رہا ہے مائی تم یہ کیا چھنکاتی ہو آدھا بھائی جاگ رہا ہے
دنیا کی مٹی سونا اگلتی ہے اور مٹی کا سونا موت کا زیور بنتا ہے
زندگی ڈرامے سے نہیں بنتی ڈراما زندگی سے بنتا ہے
اس نے اپنی سوندھی سوندھی مٹی گوندھی تھی اور عجب سرشاری سے پیار کے چاک پہ رکھ دی تھی میں اپنے دونوں ہاتھوں کی پوروں میں جاگ اٹھا تھا
سنبھل کر چل بہت گہرا اندھیرا ہے تمہیں غاروں میں ایسا غار کم ہی مل سکے گا یہاں دھرتی نہیں کچھ آسماں سا ہے درخت اس نیلی چھت کے ساتھ یوں چپکے ہیں جیسے یہ اسی امبر کا حصہ ہوں کئی دن سے یہ سب نیلے درخت اس آسماں سے اگ رہے ہیں ابھی میں تم سے کیا کہنے لگا تھا سنبھل کر ہاں مجھے کہنا تھا کہ اس ...