دو طرح سے
دو طرح کے ہیں بدن
دو طرح کے پیرہن
اک سجل بے رنگ ریشم سا لباس
جس میں لپٹا میرا فن
جس میں پلتے ہیں خیال
اک طرح کا پیرہن
تازہ اجلے سوت کا
جس میں رکھا ہے بدن
اور میرے خط و خال
پیرہن اوپر کا اترے
تو پہن لوں میں کسی دیوار کو
یا گماں کو چھوڑ کر
میں یقیں کو اوڑھ لوں
پیرہن اندر کا اترے
اور ہوں میں بے لباس
آگہی کو ڈھونڈ کر میں
اس زمیں کو اوڑھ لوں