برف کا لفظ
ریت ہمارے تلوے بھونتی ہے
اور آنکھیں لال کرتی ہے
جھیل پر کچھ نظر نہیں آتا
چاند ہمارے خوابوں سے نکل کر
سرحدوں پر ڈھیر ہو گیا ہے
کنارے پر گرے بیج آنکھیں کھولتے ہیں
اور پھر ہمیشہ کے لئے موند لیتے ہیں
زعفران کا کھیت اس بار بھی بار آور نہ ہوا
کون کریدے مٹی
اور اپنا نصیب تلاش کرے
زمین کو کوئی دیکھتا ہی نہیں
سب آسمان کی طرف دیکھتے ہیں
مگر یہ نہیں جانتے
کہ چیخ چنار سے اونچی کیوں نہیں جاتی
چاندنی کوہساروں سے پھسلتی ہے
اور برف چھتوں سے
شنگرفی سلوں پر گرتے گرتے
کوئی لفظ بنا دیتی ہے
کوئی بھی لفظ
جو زبان پر آنے سے پہلے
کہیں خیال میں اگتا ہے
جس کے معنی پر کوئی گواہ نہیں