مقدر
چڑیا نے تو سوچی تھی اک اونچی پرواز لیکن ظالم باز
چڑیا نے تو سوچی تھی اک اونچی پرواز لیکن ظالم باز
اک ٹھٹھرتی صبح ہے ڈاک خانے کی گلی میں زرد پتے اڑ رہے ہیں کپکپاتی انگلیوں سے لکھا ایڈریس ہر کوئی پڑھ لیتا ہے دوپہر کے باغ میں داؤدی پھولوں اور اس کے درمیاں نوجوانی کے دنوں کی ایک یاد دیر تک ہنستی رہی سہ پہر ہے اور وہ کونے والی شاپ سے اک غبارہ لے رہی ہے لفظ ہونٹوں سے اڑانیں بھر رہے ...
پھول تھے اور قہر خوشبو کا خوف کے گھنگھرو چھن سے بجنے لگے چاندنی کو فروغ تھا اتنا رات بھر اس طلسم کا فتنہ سر اٹھاتا رہا مرے اندر سحر میں قید آرزو میں گم سب کے سب ہم سب کے سب تم جان جوکھوں میں ڈال کر نکلے اک کشادہ مکان کی چھت پر نرگسی چہرے بال کھولے ہوئے ماتمی سر میں گیت گاتے ...
کسی برباد علاقے سے نکلی ایک گلی ہے جس میں ہر شے اپنی موت کے بعد آتی ہے
سن کے بھی چپ ہی رہا تلخ باتیں مشک بار افغانی قہوے کے رسیلے گھونٹ میں گھل مل گئیں یہ حقیقت اور تھی کہ باپ دادا قصہ گو مشہور تھے اس لیے وہ چپ رہا تاریخ کے نقشے میں جن شہروں کی شہرت گونجتی ہے وہ خموشی کے اس ازلی رنگ سے ظاہر ہوئے جس سے شناسائی نہیں ہے اس ہجوم شور و شر کی اس نے سوچا یاد ...
وہ الٹی شلوار پہن کر لوگوں سے یہ کہتا ہے سرکار بھی الٹی ہے شلوار بھی الٹی ہے
وہ چھتری کی طرح کھل کر ملی ہے گلی میں آج بارش پھر رہی ہے میں اس کی دھوپ میں بیٹھا ہوا ہوں یہ اس کے ساتھ پہلی جنوری ہے
وہ الٹی شلوار پہن کر لوگوں سے یہ کہتا ہے سرکار بھی الٹی ہے شلوار بھی الٹی ہے
وہ برفانی رات بادام اخروٹ اور ستو سرما کا شہد اور ساگ کی خوشبو اور اک لوک کہانی میں گم آگ کے گرد میں اور تم آؤ چلیں چرخے کی آواز میں ڈوبی اس بستی میں شام جہاں پر ایسے اترے جیسے کسی بیمار بدن میں جیون رس برف کی رت کا پہلا دن کتنا سفید اور آزردہ ہے دریا اپنی مجبوری کا گدلا پانی اور ...