سنبھل کر چل
سنبھل کر چل
بہت گہرا اندھیرا ہے
تمہیں غاروں میں ایسا غار کم ہی مل سکے گا
یہاں دھرتی نہیں کچھ آسماں سا ہے
درخت اس نیلی چھت کے ساتھ یوں چپکے ہیں
جیسے یہ اسی امبر کا حصہ ہوں
کئی دن سے یہ سب نیلے درخت اس آسماں سے اگ رہے ہیں
ابھی میں تم سے کیا کہنے لگا تھا
سنبھل کر
ہاں مجھے کہنا تھا
کہ اس غار سے نکلیں تو شاید آسماں سے ہم زمیں دیکھیں
مگر ہم تو زمیں پر تھے
یہ کیسے آسماں پر آ گئے ہیں
خلا تو اس زمیں پر بھی بہت ہے
مگر ہم آسماں اس کو نہیں کہتے
زمیں تو آسماں پر بھی بہت ہے
مگر ہم اس کو دھرتی کیسے کہہ دیں
چلو اس غار سے ہو کر نکلتے ہیں کسی جانب
سنبھل کر
ہاں سنبھل کر چل
یہاں پر روشنی اتنی زیادہ ہے
کہ آنکھوں میں اندھیرا بھر گیا ہے