افسوس
مگر ہم نے دیکھا
کہ ویران گھاٹی کا دامن بھرا تھا
بہت ساری چیزیں
ہواؤں کے پاؤں سے الجھی ہوئی تھیں
دعاؤں کی
خالی اور اوندھی پڑی شیشیاں
اور ٹوٹی ہوئی پنجگانہ نمازیں
نوافل و صیام کی سخت ڈھالیں
مساجد کے رستوں میں توڑی گئی
جوتیوں
اور قدم در قدم
نیکیوں کی قطاریں
وظائف و درود و مناجات کے
اک ربن میں بندھے
خداوند عالم کی رسی کے ٹکڑے
اور ایسی بہت ساری چیزیں
خدا کی خدائی میں بکھری ہوئی تھیں
کہ جیسے یہاں
رات ٹھہرے ہوئے کارواں کو
اب ان کی ضرورت نہ تھی
کہ بخشش کا خالی کنستر
بہت بھر گیا تھا
مگر نیک ناموں کی پھینکی ہوئی
بہت ساری چیزوں کے
اس ڈھیر میں
کوئی ہمسائے کا درد
اس پر بہایا گیا گرم آنسو نہیں تھا
کوئی بھوک کو کاٹنے والا دل دار چاقو نہیں تھا
سخاوت کا خاموش ہاتھ
اور شقاوت پہ اٹھتا ہوا کوئی بازو نہیں تھا
بہت ساری چیزیں تھیں
لیکن کہیں بھی ترازو نہیں تھا