نہ درمیاں نہ کہیں ابتدا میں آیا ہے
نہ درمیاں نہ کہیں ابتدا میں آیا ہے بدل کے بھیس مری انتہا میں آیا ہے اسی کے روپ کا چرچا ہے اب فضاؤں میں ہوا کے رخ کو پلٹ کر ہوا میں آیا ہے کبھی جو تیز ہوئی لو تو جگمگا اٹھا برہنہ تھا جو کبھی اب قبا میں آیا ہے مجھے ہے پھول کی پتی سا اب بکھر جانا وہ چھپ چھپا کے مری ہی ردا میں آیا ...