وشال کھلر کی غزل

    نہ درمیاں نہ کہیں ابتدا میں آیا ہے

    نہ درمیاں نہ کہیں ابتدا میں آیا ہے بدل کے بھیس مری انتہا میں آیا ہے اسی کے روپ کا چرچا ہے اب فضاؤں میں ہوا کے رخ کو پلٹ کر ہوا میں آیا ہے کبھی جو تیز ہوئی لو تو جگمگا اٹھا برہنہ تھا جو کبھی اب قبا میں آیا ہے مجھے ہے پھول کی پتی سا اب بکھر جانا وہ چھپ چھپا کے مری ہی ردا میں آیا ...

    مزید پڑھیے

    دیوار و در سا چاہیے دیوار و در مجھے

    دیوار و در سا چاہیے دیوار و در مجھے دیوانگی میں یاد نہیں اپنا گھر مجھے تو تھا تو تھا وجود میں اک آئنہ مرے اب غفلتوں سے ملتی ہے اپنی خبر مجھے پلکوں پہ نیند نیند میں رکھتا ہے خواب پھر دیتا ہے دستکیں بھی وہی رات بھر مجھے جی چل پڑا خزاؤں کی جانب اداس شب یہ لگ گئی بہار میں کس کی نظر ...

    مزید پڑھیے

    ایک لمحہ ٹھہر گیا مجھ میں

    ایک لمحہ ٹھہر گیا مجھ میں وقت جیسے کہ قید تھا مجھ میں کتنے احساس بھر گیا مجھ میں رکھ گیا کون آئنہ مجھ میں کتنے سورج نئے ابھر آئے آسماں جب بکھر گیا مجھ میں سارے منظر مرے اشاروں پر بس گئی ہے تری ادا مجھ میں کون صحرا میں بس گیا آ کر پیڑ اگنے لگا گھنا مجھ میں میں کہاں رات کا مسافر ...

    مزید پڑھیے

    پھر اس روپ میں آنا تم

    پھر اس روپ میں آنا تم پھر سے راس رچانا تم مہکوں گلشن گلشن میں موسم پہ چھا جانا تم پھر میں اندھیرے اوڑھوں گا پھر اک دیپ جلانا تم بخشی تم نے دن کو رات اجیارا بھی لانا تم جب میں دور چلا جاؤں مجھ کو پاس بلانا تم بھٹکوں جنگل جنگل میں شاخ پہ پھول کھلانا تم کھلرؔ میٹھے بول کہے ڈالی ...

    مزید پڑھیے

    آگ کا دریا پار کرے ہو

    آگ کا دریا پار کرے ہو موت کا کاروبار کرے ہو ہنسنا مشکل رونا مشکل خود کو یوں لاچار کرے ہو آنکھیں کھولو سادھو بابا ترک یہ کیوں سنسار کرے ہو دل کے بدلے پاگل ہو کیا سانسوں کا بیوپار کرے ہو کھلرؔ جی تم راہ کو اپنی دو دھاری تلوار کرے ہو

    مزید پڑھیے

    اس ایک شخص کا کوئی پتہ نہیں ملتا

    اس ایک شخص کا کوئی پتہ نہیں ملتا کہ اس کے بعد تو کچھ بھی نیا نہیں ملتا وہ آئنہ سے بھی نظریں چرا رہا ہوگا کہ اس کا روپ ہی اس سے ذرا نہیں ملتا وہ دھوپ چھاؤں کرے کہکشاں بہار کرے وہ عرض و طول کے اندر بندھا نہیں ملتا وہ جسم روح خلا آسمان ہے کیا ہے کہ رنگ کوئی ہو اس سے جدا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    شدت درد میں احساس کا کردار میاں

    شدت درد میں احساس کا کردار میاں اپنے ہونے میں کہاں خود کا ہے اظہار میاں ہم بھی کھو ڈال رہے ہیں کہ بدل جائیں ذرا عقل بے بس کی سنے دل نہیں تیار میاں ڈھونڈ کچھ لوگ مقابل ہوں جہاں میں تیرے شہر ناقص میں کہاں ہم سے ہیں غم خوار میاں گنگنا بزم جہاں شہد شکر شہد شکر بات رکھتے ہیں لبوں پر ...

    مزید پڑھیے

    تیرے ملنے کی دعا کی جائے

    تیرے ملنے کی دعا کی جائے درد کی کچھ تو دوا کی جائے خامشی اوڑھ رہا ہوں پل پل خالی برتن کی صدا کی جائے شاخ نے اوڑھ لیے ہیں پتے آؤ خود پر بھی قبا کی جائے چاند کو جس سے حیا آتی ہے جذب کیا اس کی ادا کی جائے خشک صحرا میں کہاں ہے پانی دفن جنگل میں انا کی جائے

    مزید پڑھیے

    تری جب نیند کا دفتر کھلا تھا

    تری جب نیند کا دفتر کھلا تھا یقیناً ایک اک منظر کھلا تھا اسے تم چاند سے تشبیہ دینا کہ اس کے ہاتھ میں خنجر کھلا تھا سنا دیوار و در کیا کہہ رہے ہیں ہماری پیٹھ پر نشتر کھلا تھا نہیں کہ تنگ تھیں اپنی قبائیں تمہارے جسم کا پیکر کھلا تھا بدلتے موسموں کی تان ٹوٹی گھٹاؤں پر مرا ساغر ...

    مزید پڑھیے

    کیا خلا آسمان تھا پہلے

    کیا خلا آسمان تھا پہلے کس کی صورت پہ دھیان تھا پہلے دل جو اب شور کرتا رہتا ہے کس قدر بے زبان تھا پہلے تو جسے کارواں سمجھتا ہے اس پہ میرا نشان تھا پہلے جس جگہ روشنی ٹپکتی ہے واں ہوا کا گمان تھا پہلے چپ سی کیوں لگ گئی ہے کھلرؔ کو کتنا جادو بیان تھا پہلے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2