ورثہ

ہماری داستانوں میں
تمہاری داستانیں
مل ہی جاتی ہیں
ہمیں سب یاد ہے
وہ ایک اک منظر
جسے ان موسموں نے
راگنی ہونا سکھایا تھا
جنہیں ہم دور کی وادی میں
پیچھے چھوڑ آئے تھے
مگر اک آرزو بن کر
وہی وادی وہی منظر
تعاقب میں ہے
خوابوں میں
مہکتے راز افشاں ہیں
پگھلتی برف کے اندر
چنابیں
ٹوٹنے کی منتظر ہیں
اب بھی صحرا میں
ہوائیں گنگناتی ہیں
وہ پاون راگ مدھم سے
یہی پنجاب کی دھرتی جہاں
اک ہیر اور رانجھے کا وارث میں
تن تنہا
فقط میں