لمحہ

ابھی اک شاخ سے
ہنستے ہوئے
اک پھول کی خوشبو
جو ٹوٹی ہے
اسی نے موسموں کو
راگ کی تعلیم بخشی ہے
اسی نے درد کو
تاثیر میں بہنا سکھایا ہے
مگر اک خواب جو
ریشم کے دھاگوں میں
کہیں الجھا ہوا سا ہے
اسے میں جاگتے سوتے
سروں میں
گنگناتا ہوں
اسے میں روشنی کے
آئنے میں
دیکھ لیتا ہوں
مسلسل رات کے لمحے
مری پلکوں پہ
ہر دم خواب بنتے ہیں
مجھے شب بھر جگاتے ہیں
مرے ماضی کے کچھ دھاگے
ابھی تک مجھ سے الجھے ہیں
مری تنہائیوں میں
گونج ہے اب تک
کسی معصوم باطن کی
کسی رنگین تتلی کی
کسی جادو بیاں کی
اور کسی شفاف گلشن کی