ایک نظم صرف تمہارے لیے

مجھ میں آتش جو چھپی ہے اسے بھڑکانے میں
وصل سے زیادہ ترے ہجر کی خواہش ہے مجھے
جسم اور جان سے آگے بھی کوئی دنیا ہے
اور ان راہوں میں تنہا ہی بھٹکنا ہے مجھے
اور ان راہوں میں تنہا ہی بھٹکنا ہے مجھے
تجھ کو تسخیر بدن کی ہی رہی ہے خواہش
اور میں روح کے سودے کے لیے سوچتی ہوں
تجھ کو معلوم ہے جو شے بھی میسر آ جائے
اس کی پھر قدر کہاں رہتی ہے
میں تجھے سونپ دوں خود کو تو خسارہ ہے بہت
ڈوبنے کے لیے آنکھوں کا کنارہ ہے بہت
کیا یہ ممکن ہے کہ تو رنگ میں بھی رنگ لے اپنے
اور دامن پہ مرے داغ بھی کوئی نہ لگے
وصل کے بعد تو حیرت میں کمی آتی ہے
پھر جنوں خیزی کی شدت میں کمی آتی ہے
حیرت عشق کی گم نام مسافر ہوں مجھے
ایسا رد کر مری حیرت میں اضافہ ہو جائے
اور اس عشق کی شدت میں اضافہ ہو جائے