گریۂ تحیر
بڑا ہی پیارا لگے ہے یہ طفل گریہ کناں
کسی کھلونے کے چھننے پہ رو رہا ہے بہت
ستارہ آنکھوں میں موتی چمک رہے ہیں بہت
ہے اپنے کارگر ہستی میں محو راہ
ملے جو مہلت مصروفیت تو دیکھے اسے
ابھی وہ آئے گی اور بے قرار ہو کے اسے
اٹھا کے بانہوں کے حلقے میں پیار کر لے گی
پھر اپنے ملگجے آنچل میں اس کے آنسوؤں کو
وہ جیسے سلمیٰ ستارے کی طرح ٹانکے گی
ہیں میری آنکھوں میں کب سے ستارے رقص کناں
بڑی امید سے میں آسمان تکتی رہی
وہ اپنے کار جہاں میں لگا ہوا ہے مگر
اگر وہ آ نہیں سکتا تو اتنا ہی کر دے
مری طلب کو وہیں سے وہ بے طلب کر دے
مرے سوال کی طاقت کو چھین لے مجھ سے
میں تھک چکی ہوں تحیر کی آہ و زاری سے