دسمبر

طاق دل پہ تری یادوں کو سجا رکھا ہے
اس تبرک کی ضرورت مجھے جب پڑتی ہے
اپنی آنکھوں سے لگاتی ہوں انہیں چومتی ہوں
اور پھر طاق پہ دوبارہ سجا دیتی ہوں
عہد فرقت میں شب و روز گزر جاتے ہیں


تیری یادیں ہیں کبھی پھول کی صورت دل میں
اور کبھی موتیوں کی طرح سے آنسو بن کر
چشم احساس سے دامن پہ بکھر جاتی ہیں
میں انہیں سینت کے رکھتی ہوں گزارے کے لئے
تیری یادوں کو مگر سینت کے کب تک رکھوں
برف لمحوں میں یہ ہاتھوں سے پھسل جاتی ہیں


اس سے کہنا کہ دسمبر بھی چلا آیا ہے
سرد موسم مرے احساس کو گرماتا ہے
دل وحشی تو دھڑکتا ہی چلا جاتا ہے
رک نہ جائے کہیں تجدید تمنا کی گھڑی
مخملیں شوق کی چادر ہے مرے سر پہ پڑی
اس سے کہنا کہ دسمبر نہ گزر جائے کہیں
اور تقویم محبت نہ بکھر جائے کہیں