ادھوری تصویر
اے مصور مری تصویر پڑی ہے کب سے
اب کسی طور ذرا اس کو مکمل کر دے
اپنی تخلیق میں وہ رنگ بھی شامل کر دے
جو ترے ذوق ہنر کی بھی گواہی ٹھہریں
جھیل سی آنکھوں کی گہرائی میں تو ڈوب گیا
سرخ ڈورے جو ہیں حیرت کے نہ دیکھے تو نے
لب کے پیمانے تری پیاس بجھاتے ہیں مگر
تشنہ پیمانوں کو تو جرأت اظہار بھی دے
میری تصویر دھنک رنگ نہیں ہو پائی
میرے خوابوں کو تری آنکھ نہیں دیکھ سکی
تو ہے خطاط مرے حرف بدن کے بدلے
وہ لکیریں بھی بنا فکر کو ظاہر جو کریں
گیسو و عارض و لب ہی ترا معیار رہے
سنگ مرمر کا بدن ہی ترا شہکار رہے
میں کچھ اس سے بھی سوا ہوں تجھے معلوم نہیں
میں تری دوست ہوں لیکن تری محکوم نہیں