Tanveer Anjum

تنویر انجم

ممتاز پاکستانی شاعرات میں نمایاں

One of the prominent Pakistani women poets.

تنویر انجم کی نظم

    ہم دونوں میں سے ایک

    ہم بہت تھوڑے لوگ ہیں وہ بہت زیادہ ہم لا پروا ہیں خود اپنی ذات سے ہمیں ایک دوسرے کے مفادات کی کیا فکر وہ آپس میں شیر و شکر ہیں اور ہمیں کمزور رکھنے کے لیے ساز باز کرتے رہتے ہیں ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جوں جوں ہمارے لوگ ہمیں چھوڑ کر ان کے پاس جا رہے ہیں ہم کسی کو نہیں روکتے بلکہ ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں اجازت ہے

    کیوں کرتے ہو تم فیشن سے باہر مصنوعی پھولوں سے اتنی زیادہ نفرت یہ بھر دیتے ہیں رنگ ہمارے کمروں میں ایسے گھروں کے جن میں باغ نہیں ہیں گملے نہیں ہیں ہم رہتے ہیں مل جل کر سو سے زائد گھروں کی ایک عمارت میں اجنبیوں کے ساتھ یہ بچا لیتے ہیں ہمیں زحمتوں سے ہر روز مرجھانے والے پھول خریدنے ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے درد کو اپنے اوپر لینے کے لیے

    میں محسوس کر سکتی ہوں تمہارے درد کو اپنے جسم میں اترتے ہوئے مگر یقین نہیں کر پاتی کہ یہ تمہارا ہی درد ہے گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ میں سوچتی رہتی ہوں تمہارے بستر کے گرد چکر لگا کر میں اس درد کو اپنے اوپر لینے کے لیے کیا کیا قربان کر سکتی ہوں جسمانی راحتیں سماجی مراعات جذباتی ...

    مزید پڑھیے

    ان دیکھی لہریں

    یہ لہروں کی مانند چڑھتے اترتے طلسمات موسم ہرے پانیوں میں اتر جانے والے گلابوں میں ڈھل جانے والے یہ خوابوں کے دیپک جلاتے جلاتے چپکے سے پل پل اتر جانے والے

    مزید پڑھیے

    سناؤ مجھے بھی ایک لطیفہ

    چپ کیوں ہو جاتے ہو مجھے دیکھ کر سناؤ مجھے بھی ایک لطیفہ میری صنف کے بارے میں میری صنف کے بارے میں تمہاری لطیفوں کی زنبیل عمر و عیار کی زنبیل جیسی ہے نکالو کوئی نیا یا صدیوں پرانا لطیفہ محفوظ کرو مجھے جیسے تم کرتے ہو ایک دوسرے کو میڈیکل کالج میں مردہ جسموں کی چیر پھاڑ کرتے ...

    مزید پڑھیے

    آخری پتیوں میں

    یہ جنگلوں کی رات ہے اس رات سے آگے کوئی بستی نہیں یہ اوس جو شاخوں میں ہے پی لیں اسے اس اوس سے آگے کوئی ندی نہیں

    مزید پڑھیے

    جب محبت کڑوے سمندر میں ڈوب رہی ہو

    کیوں تصور کیا جائے ناپید ہوا میں ایک مضبوط ڈور سے بندھے بہت سے رنگ برنگے غباروں کا جو ہمیں یہاں سے اڑا کر وہاں لے جا سکتے ہوں اور وہاں سے آگے پھر اور بھی آگے کیوں دیکھا جائے گدلے آسمان پر دھندلے ستاروں کے درمیان چمکتے ہوئے چاند کو اتنی دیر تک کہ وہ خشک کر دے ہماری آنکھوں کا ...

    مزید پڑھیے

    چار سال بعد

    پھر آج چار سال بعد اسی جگہ کھڑی ہوں میں چبوترے پہ گرد کی دبیز تہہ جمی ہوئی گزرتی ساعتوں کے غم دروں میں چیختے ہوئے اداس کھڑکیوں کے رنگ دکھ میں بھیگتے ہوئے یہ خواب بستروں کی چادروں میں سوکھتے ہوئے وہ پھول ایک بار جس طرح یہاں سجائے تھے اسی طرح سے ان کے زرد نقش کانپتے ہوئے پھر آج چار ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں وہ کیوں یاد آ رہے ہیں

    دنیا کس کی انگلیوں پر گردش کر رہی ہے ہم نہیں جانتے ہم بس یہ جانتے ہیں ہمارا وقت تمہاری انگلیوں کی جنبش کا پابند ہے ہم نے جب گروہ بنائے سرخ نیلا پیلا سبز نارنجی کاسنی سفید ہمیں تم نے ان میں سے کسی گروہ میں نہیں رکھا دراصل تم نے ہمیں جانا ہی نہیں ہم تمہاری زمین سے باہر تھے ایک گہری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4