Tanveer Anjum

تنویر انجم

ممتاز پاکستانی شاعرات میں نمایاں

One of the prominent Pakistani women poets.

تنویر انجم کی نظم

    رائیگاں صبح کی چتا پر

    ہم جو کبھی کبھی ہوتے ہیں اور اکثر نہیں ہوتے خواب کی اولاد ہیں تکمیل اک صحرا کا نام ہے جس کے سفر کے لیے جتنی نسلوں کی عمر چاہے اتنی نسلیں ابھی پیدا نہیں ہوئیں اور وہ جو میرے صحرا کا سراب تھا میں نے اپنے اپنے زندہ لمحوں کو اس کے نام کر دیا وہ کون تھا وہ مرتے ہوئے مزدوروں کی امنگ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    رات کے پڑاؤ پر

    رات نے اپنی مہربان باہیں پھیلا دیں اور سسکیوں کا جوار بھاٹا تاریکیوں سے لپٹ گیا تصویروں کو پہچاننے والے دلوں کے دیپک بجھتے گئے اور ان ساری انجان تصویروں کے درمیان حیران آنکھیں ہیں اور سسکیوں کا جوار بھاٹا سسکیاں جنہیں زندگی کے طویل دنوں نے پناہ نہ دی اور کرنوں پر بھاگتے ...

    مزید پڑھیے

    سفر اور قید میں اب کی دفعہ کیا ہوا

    میں نے ایک ساحل سے ایک سیپی اٹھائی اور اپنے آنسو کو اس میں بند کر کے دور گہرے سمندر میں پھینک دیا میں نے اپنے ہاتھوں پر اک تیز چھری سے لمبے سفر کی لکیر بنائی اور ایسے جوتے خریدے جو چلتے ہوئے پیروں کو ہمیشہ زخمی رکھتے ہیں اب کی دفعہ میں نے گھر بنایا ہے ایسے شیشوں کا جن میں صرف اندر ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری بولی کی رنگینیاں

    کتنے رنگوں کے نام ہیں تمہاری بولی میں دنیا تمہیں اتنی ہی رنگین نظر آئے گی اپنی بولی میں موجود سب درختوں کے نام یاد کرو تاکہ بیٹھ سکو ہر دفعہ مختلف نام کے سائے میں برف کی کتنی قسموں کے نام جانتے ہو اگر تم اسکیمو ہوتے تو برف کی بیس قسموں کی پہچان کر پاتے کہیں انسانی جذبات کی بہت ...

    مزید پڑھیے

    ہم دونوں میں سے ایک

    ہم بہت تھوڑے لوگ ہیں وہ بہت زیادہ ہم لا پرواہ ہیں خود اپنی ذات سے ہمیں ایک دوسرے کے مفادات کی کیا فکر وہ آپس میں شیر و شکر ہیں اور ہمیں کمزور رکھنے کے لئے ساز باز کرتے رہتے ہیں ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جوں جوں ہمارے لوگ ہمیں چھوڑ کر ان کے پاس جا رہے ہیں ہم کسی کو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    انتظار

    تمہیں معلوم ہے وہ بے خودی کا کیسا عالم تھا مرے ہونٹوں میں جلتی پٹریاں بھی مسکراتی تھیں مری آنکھوں کو راتیں جاگنے کا غم نہیں تھا جب مرے ہاتھوں میں بکھری سلوٹیں شکوہ نہ کرتی تھیں مرے پیروں کا ننگا پن کہیں بے دم نہیں تھا جب مجھے کھدر کے ملبوسات بھی رسوا نہ کرتے تھے کسی کھانے کی باسی ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی کے فن میں کامیاب

    اپنی ازلی آرزو کے مطابق میں بالکل آزاد ہو چکی ہوں ہر خواہش سے لالچ سے خوف سے غم سے نفرت سے میں چاہوں تو روکنگ چیئر پر صبح سے شام کر سکتی ہوں یا رات بھر سفید کپڑے پر رنگ برنگے پھول کاڑھ سکتی ہوں یا جنگل میں اتنی دور جا سکتی ہوں کہ واپس نہ آ سکوں یا دائرے میں گھومتے ہوئے اپنے آپ کو ...

    مزید پڑھیے

    آخری کیل

    ایک خوب صورت دن میں نے سوچا میں اپنے زیر انتظام بارہ ستونوں کو آراستہ کروں پھر میں نے بحث کی ایک سربراہ کی حیثیت سے میرا فیصلہ ہوگا کہ میں ان ستونوں کو کیسے آراستہ کروں مصنوعی پھولوں کے گلدستے لگاؤں جامد حیات تصویریں یا شاعروں کے خاکے تعلیمی بورڈ بیٹھا مسکراتا رہا اور سسٹر ...

    مزید پڑھیے

    میں رکھ دیتی ہوں تمہارا نام فوٹو گرافر

    لوگ سمجھتے ہیں تمہارا ایک ہی نام ہے مگر میں جانتی ہوں ایسا نہیں ہے میں تو رکھ لیتی ہوں ہر روز تمہارا ایک نیا نام لو آج میں رکھ دیتی ہوں تمہارا نام فوٹو گرافر تو اپنے نام کے مطابق تم اتارو تصویروں میں اپنی آنکھیں، ناک، رخسار اور ہونٹ اور ای میل کرتے رہو مجھے تاکہ میں اتارتی ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنی نظمیں واپس لینے کو تیار ہوں

    میری نظموں نے کچھ لوگوں سے لا پروائی برتی ہے میری نظموں نے کچھ لوگوں کو اذیت پہنچائی ہے میری نظموں نے کچھ لوگوں کو مار ڈالا ہے میں اپنی ساری نظمیں واپس لینے کو تیار ہوں مجھے سب لوگوں سے معافی چاہیئے تاکہ میں برداشت کر سکوں دنیا کی لاپروائی اذیت سے تڑپتا ہوا دل اور اپنی موت

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4