Talib Dehlavi

طالب دہلوی

طالب دہلوی کی غزل

    اے کاشف اسرار بتا ہے کہ نہیں ہے

    اے کاشف اسرار بتا ہے کہ نہیں ہے کہتے ہیں جسے لوگ خدا ہے کہ نہیں ہے دنیا میں بھلائی کا صلہ ہے کہ نہیں ہے انجام برائی کا برا ہے کہ نہیں ہے محسوس تو ہوتا ہے دکھائی نہیں دیتا اس سوچ میں ڈوبا ہوں خدا ہے کہ نہیں ہے کیوں ہم کو ڈراتا ہے کوئی روز جزا سے خود اپنی جگہ زیست سزا ہے کہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    چاہا بہت مگر کسی عنواں نہ کر سکے

    چاہا بہت مگر کسی عنواں نہ کر سکے ایماں کو کفر کفر کو ایماں نہ کر سکے افسوس کوئی کار نمایاں نہ کر سکے قطرہ کو موج موج کو طوفاں نہ کر سکے ممکن نہیں کہ ہمت مرداں نہ کر سکے وہ کام کون سا ہے جو انساں نہ کر سکے ناموس عاشقی کا جنوں میں بھی تھا لحاظ ہم چاک فصل گل میں گریباں نہ کر سکے تم ...

    مزید پڑھیے

    بات دل کی زباں پہ آئی ہے

    بات دل کی زباں پہ آئی ہے اب یہ اپنی نہیں پرائی ہے خیر داغ جگر کی ہو یا رب عمر بھر کی یہی کمائی ہے چپ رہیں تو رہا نہیں جاتا کچھ جو کہئے تو جگ ہنسائی ہے عقل دو چار گام تک محدود عشق کی دور تک رسائی ہے متبسم ہوئے ہیں لب کس کے کائنات آج مسکرائی ہے وہ بھی ہے اک مقام عشق جہاں ہم نے اپنی ...

    مزید پڑھیے

    محبت کا تجھے عرفان بھی ہے

    محبت کا تجھے عرفان بھی ہے محبت کفر بھی ایمان بھی ہے تضاد حضرت انساں نہ پوچھو فرشتہ بھی ہے یہ شیطان بھی ہے یہی ثابت ہوا ہے زندگی سے جو دانا ہے وہی نادان بھی ہے بہت بے ربط ہے روداد ہستی اس افسانے کا کچھ عنوان بھی ہے اسی کا زندگی ہے نام شاید کچھ الجھن بھی کچھ اطمینان بھی ہے نہ ...

    مزید پڑھیے

    کیسے کیسے ستم اٹھائے ہیں

    کیسے کیسے ستم اٹھائے ہیں زخم کھا کر بھی مسکرائے ہیں اشک آنکھوں میں ڈبڈبائے ہیں یا ستارے سے جھلملائے ہیں آپ جب بھی چمن میں آئے ہیں گل تو گل خار مسکرائے ہیں کیوں نہ جانے یہ دل میں آتا ہے آپ اپنے نہیں پرائے ہیں کوئی اپنا مزاج داں نہ ملا ہم نے خود اپنے ناز اٹھائے ہیں جنہیں ...

    مزید پڑھیے

    قابل دید تھا جو رنگ بھی تغییر میں تھا

    قابل دید تھا جو رنگ بھی تغییر میں تھا لطف دنیا کی بدلتی ہوئی تصویر میں تھا حرف بے کار تھا جو کچھ مری تقدیر میں تھا حل ہر اک عقدۂ دشوار کا تدبیر میں تھا میری تقصیر نے انسان بنایا مجھ کو میری اصلاح کا پہلو مری تعزیر میں تھا اب سزاوار فنا کوئی بنا لے ورنہ مدعا زیست کا مضمر مری ...

    مزید پڑھیے

    اپنے مقصد میں یہ ناکام ہوئی جاتی ہے

    اپنے مقصد میں یہ ناکام ہوئی جاتی ہے زندگی موت کا پیغام ہوئی جاتی ہے بے کراں تلخیٔ آلام ہوئی جاتی ہے جاوداں گردش ایام ہوئی جاتی ہے ابتدا صورت انجام ہوئی جاتی ہے ہر سحر میرے لئے شام ہوئی جاتی ہے چیز جو خاص تھی وہ عام ہوئی جاتی ہے عاشقی مفت میں بدنام ہوئی جاتی ہے عشق میں نالہ و ...

    مزید پڑھیے

    ان دنوں حق جو بات کہتے ہیں

    ان دنوں حق جو بات کہتے ہیں جان سے دھو کے ہات کہتے ہیں حسن کو نور ذات کہتے ہیں عشق کی کائنات کہتے ہیں دل کو جو بے ثبات کہتے ہیں دن کو گویا وہ رات کہتے ہیں جس کی معراج خود شناسی ہو ہم اسے وصل ذات کہتے ہیں ان کی ہمت پہ آفریں کہئے جو اجل کو حیات کہتے ہیں جان کا جسم سے جدا ہونا کیا ...

    مزید پڑھیے

    ذرا دیکھیں رفیق کارواں منزل کہاں تک ہے

    ذرا دیکھیں رفیق کارواں منزل کہاں تک ہے اسی سے کچھ ہو اندازہ سکوں حاصل کہاں تک ہے یہ دنیا ہاں یہ دنیا کامگار دل کہاں تک ہے کنار موج میں گنجائش ساحل کہاں تک ہے بتاؤں کیا حیات آسودہ میرا دل کہاں تک ہے مجھے مرغوب یہ ترتیب آب و گل کہاں تک ہے کوئی ناقص کہاں تک ہے کوئی کامل کہاں تک ...

    مزید پڑھیے

    نہ کفر کی نہ کبھی ہم سے دیں کی بات کرو

    نہ کفر کی نہ کبھی ہم سے دیں کی بات کرو کسی کی زلف کسی کی جبیں کی بات کرو فضول کیوں فلک ہفتمیں کی بات کرو جہاں پہنچ ہو تمہاری وہیں کی بات کرو یہ بار بار ہے کیا ذکر زال دنیا کا کسی حسیں کسی زہرہ جبیں کی بات کرو بسی ہوئی ہے جو خوابوں میں روز اول سے اگر کرو تو اسی نازنیں کی بات ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4