چاہا بہت مگر کسی عنواں نہ کر سکے
چاہا بہت مگر کسی عنواں نہ کر سکے
ایماں کو کفر کفر کو ایماں نہ کر سکے
افسوس کوئی کار نمایاں نہ کر سکے
قطرہ کو موج موج کو طوفاں نہ کر سکے
ممکن نہیں کہ ہمت مرداں نہ کر سکے
وہ کام کون سا ہے جو انساں نہ کر سکے
ناموس عاشقی کا جنوں میں بھی تھا لحاظ
ہم چاک فصل گل میں گریباں نہ کر سکے
تم کو کہیں جو رشک مسیحا تو کس طرح
تم بھی تو میرے درد کا درماں نہ کر سکے
خودداریوں کے ساتھ رہا احترام حسن
ہم عاشقی کو جذبۂ ارزاں نہ کر سکے
کم اصل چھپ سکا نہ شرافت کے بھیس میں
ذرے کو آفتاب درخشاں نہ کر سکے
دل پر اثر پڑے نہ کسی انقلاب کا
وہ کیجئے جو گردش دوراں نہ کر سکے
کرتے ہیں لوگ ذکر مساوات کس لیے
جب دو طبیعتوں کو بھی یکساں نہ کر سکے
رکھے وہ بوالہوس نہ قدم راہ عشق میں
جو خود کو تیرے نام پہ قرباں نہ کر سکے
اندیشۂ مآل تھا گویا وبال جان
طالبؔ بہ قدر حوصلہ ارماں نہ کر سکے