بات دل کی زباں پہ آئی ہے
بات دل کی زباں پہ آئی ہے
اب یہ اپنی نہیں پرائی ہے
خیر داغ جگر کی ہو یا رب
عمر بھر کی یہی کمائی ہے
چپ رہیں تو رہا نہیں جاتا
کچھ جو کہئے تو جگ ہنسائی ہے
عقل دو چار گام تک محدود
عشق کی دور تک رسائی ہے
متبسم ہوئے ہیں لب کس کے
کائنات آج مسکرائی ہے
وہ بھی ہے اک مقام عشق جہاں
ہم نے اپنی ہنسی اڑائی ہے
تجزیہ وصل کا کیا تو کھلا
یہ تو اک مستقل جدائی ہے
انقلاب اس سے بڑھ کے کیا ہوگا
کل جو پربت تھا آج رائی ہے
غیر ہم کو شکست دے نہ سکے
ہم نے اپنوں سے مات کھائی ہے
پاک دامن ہیں بادہ نوشی سے
پارسائی سی پارسائی ہے
دل چرایا تو ہیر خوب کیا
آنکھ طالبؔ سے کیوں چرائی ہے