اے کاشف اسرار بتا ہے کہ نہیں ہے
اے کاشف اسرار بتا ہے کہ نہیں ہے
کہتے ہیں جسے لوگ خدا ہے کہ نہیں ہے
دنیا میں بھلائی کا صلہ ہے کہ نہیں ہے
انجام برائی کا برا ہے کہ نہیں ہے
محسوس تو ہوتا ہے دکھائی نہیں دیتا
اس سوچ میں ڈوبا ہوں خدا ہے کہ نہیں ہے
کیوں ہم کو ڈراتا ہے کوئی روز جزا سے
خود اپنی جگہ زیست سزا ہے کہ نہیں ہے
کیوں دست نگر خود کو سمجھتا ہے کسی کا
قبضے میں ترے دست دعا ہے کہ نہیں ہے
ہم سے بھی کبھی ربط تھا اے بھولنے والے
ظالم تجھے کچھ پاس وفا ہے کہ نہیں ہے
جی بھر کے سزا دے مگر اتنا تو بتا دے
نا کردہ گناہی کی جزا ہے کہ نہیں ہے
جو بھی نظر آتا ہے یہاں نذر فنا ہے
اے دوست فنا کو بھی فنا ہے کہ نہیں ہے
باطل کی پرستش جہاں ہوتی ہے شب و روز
حق بات کے کہنے کا مزا ہے کہ نہیں ہے
دنیا کا تجھے ڈر ہے بہت یہ مجھے تسلیم
کچھ دل میں ترے خوف خدا ہے کہ نہیں ہے
تو مے کی مذمت تو کیا کرتا ہے واعظ
یہ شے مگر اندوہ ربا ہے کہ نہیں ہے
انصاف سے لیں کام جنہیں ذوق سخن ہے
اسلوب مرا سب سے جدا ہے کہ نہیں ہے
طالبؔ تو یقیناً ہی تری ساری خدائی
لیکن کوئی راضی بہ رضا ہے کہ نہیں ہے