Talib Dehlavi

طالب دہلوی

طالب دہلوی کی غزل

    شباب آگیں شراب ارغواں معلوم ہوتی ہے

    شباب آگیں شراب ارغواں معلوم ہوتی ہے یہ شام میکدہ کتنی جواں معلوم ہوتی ہے یہاں محسوس ہوتی ہے یہاں معلوم ہوتی ہے خلش خار محبت کی کہاں معلوم ہوتی ہے یہ کب محتاج تشریح و بیاں معلوم ہوتی ہے محبت آپ اپنی ترجماں معلوم ہوتی ہے رواں معلوم ہوتی ہے دواں معلوم ہوتی ہے محبت موج بحر بیکراں ...

    مزید پڑھیے

    جام جمشید کا عالم ہے مرے سینے میں

    جام جمشید کا عالم ہے مرے سینے میں بات پیدا ہی نہیں یہ کسی آئینے میں آنکھ میں شکل تری نور ترا سینے میں عکس آئینے کا پڑتا رہا آئینے میں حیرتی صورت آئینہ بنا بیٹھا ہوں کوئی صورت نظر آتی نہیں آئینے میں کیجئے مجھ پہ ذرا اور بھی حیرت طاری دیکھیے آپ مجھے بیٹھ کے آئینے میں جانتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    طوق گردن سے نہ زنجیر سے جی ڈرتا ہے

    طوق گردن سے نہ زنجیر سے جی ڈرتا ہے ہاں تری زلف گرہ گیر سے جی ڈرتا ہے دل تو قائل ہے ترے لطف و کرم کا لیکن اپنی پھوٹی ہوئی تقدیر سے جی ڈرتا ہے آپ کی چپ سے الجھتی ہے طبیعت اکثر آپ کی شوخیٔ تقریر سے جی ڈرتا ہے کہیں یہ بھی نہ ہو منشائے مشیت کے خلاف اب تو ہر سعی سے تدبیر سے جی ڈرتا ...

    مزید پڑھیے

    شاعری عبارت ہے داغؔ کے گھرانے سے

    شاعری عبارت ہے داغؔ کے گھرانے سے لٹ رہی ہے یہ دولت اس بھرے خزانے سے غم نہیں ذرا مجھ کو غرق بحر ہونے کا کتنی کشتیاں ابھریں میرے ڈوب جانے سے صبح مسکراتی ہے شام مسکراتی ہے تیرے مسکرانے سے میرے مسکرانے سے یاد عہد رفتہ سے زندگی عبارت ہے صبح نو کو نسبت ہے شام کے فسانے سے اب انہیں ...

    مزید پڑھیے

    محبت جلوۂ رخسار بھی ہے

    محبت جلوۂ رخسار بھی ہے محبت کاکل خم دار بھی ہے تجلی مانع دیدار بھی ہے نظر کی راہ میں دیوار بھی ہے وہ سادہ ہی نہیں پرکار بھی ہے بکار خویش جو ہشیار بھی ہے بشر دانا بھی ہے ہشیار بھی ہے مگر مست مئے پندار بھی ہے محبت مانع اظہار بھی ہے محبت مائل گفتار بھی ہے مری تسخیر دل میں کار ...

    مزید پڑھیے

    جہاں والوں سے روداد جہاں کچھ اور کہتی ہے

    جہاں والوں سے روداد جہاں کچھ اور کہتی ہے پئے اہل نظر یہ داستاں کچھ اور کہتی ہے نئے ماحول میں عمر رواں کچھ اور کہتی ہے بہ انداز دگر یہ داستاں کچھ اور کہتی ہے کسی کے سامنے پہلے زباں کچھ اور کہتی تھی بدل کر اب یہ انداز بیاں کچھ اور کہتی ہے تری چشم سخن گو کا کوئی انداز تو دیکھے نہاں ...

    مزید پڑھیے

    ہو گئے ہیں اپنے گرد و پیش سے بیگانہ ہم

    ہو گئے ہیں اپنے گرد و پیش سے بیگانہ ہم سنتے سنتے سو گئے ہیں زیست کا افسانہ ہم دل نظر احساس سب کچھ ان پہ قرباں کر چکے پیش کرنے کے لیے اب لائیں کیا نذرانہ ہم اک نظر میں بے نیاز جام و صہبا کر دیا کیوں نہ تیرا دم بھریں اے نرگس مستانہ ہم شوق سے ڈھائے ستم کوئی ہماری جان پر ہاں اٹھائیں ...

    مزید پڑھیے

    تری صورت سے میرے دل کی حیرانی نہیں جاتی

    تری صورت سے میرے دل کی حیرانی نہیں جاتی کہ یہ پہچان لینے پر بھی پہچانی نہیں جاتی برنگ شمع سوزاں شعلہ سمانی نہیں جاتی پس پردہ بھی تیری شان عریانی نہیں جاتی دل ناکام ارماں کی پریشانی نہیں جاتی کہ جیسے تشنہ لب کی پیاس بے پانی نہیں جاتی یقیں عاجز ہے تجھ سے کیا ٹھکانا تیری ہستی ...

    مزید پڑھیے

    عشق میں جو ہمہ تن دل نہیں ہونے پاتے

    عشق میں جو ہمہ تن دل نہیں ہونے پاتے درخور جذبۂ کامل نہیں ہونے پاتے جو تری بزم میں شامل نہیں ہونے پاتے وہ کسی بزم میں داخل نہیں ہونے پاتے جادۂ شوق میں حائل نہیں ہونے پاتے مرحلے سخت بھی مشکل نہیں ہونے پاتے ہر نفس ذکر ترا لب پہ رہا کرتا ہے ہم تری یاد سے غافل نہیں ہونے پاتے حاصل ...

    مزید پڑھیے

    اسی کو ہاں اسی کو عشق کا نذرانہ کہتے ہیں

    اسی کو ہاں اسی کو عشق کا نذرانہ کہتے ہیں سرشک غم کو یعنی گوہر یک دانہ کہتے ہیں ہنسی آتی ہے مستوں کو جنوں نا آشناؤں پر کرے جو ہوش کی باتیں اسے دیوانہ کہتے ہیں کسی کو غم کسی کا ہے کسی کو غم کسی کا ہے بعنوان دگر سب ایک ہی افسانہ کہتے ہیں اٹھا دے گی انہیں دنیا کسی دن اپنے ہاتھوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4