ذرا دیکھیں رفیق کارواں منزل کہاں تک ہے
ذرا دیکھیں رفیق کارواں منزل کہاں تک ہے
اسی سے کچھ ہو اندازہ سکوں حاصل کہاں تک ہے
یہ دنیا ہاں یہ دنیا کامگار دل کہاں تک ہے
کنار موج میں گنجائش ساحل کہاں تک ہے
بتاؤں کیا حیات آسودہ میرا دل کہاں تک ہے
مجھے مرغوب یہ ترتیب آب و گل کہاں تک ہے
کوئی ناقص کہاں تک ہے کوئی کامل کہاں تک ہے
بجا یہ فیصلہ کرنے میں میرا دل کہاں تک ہے
پرائے دل پہ مجھ کو دسترس حاصل کہاں تک ہے
جسے اپنا سمجھتا ہوں وہ میرا دل کہاں تک ہے
بڑھی تو ہے تری تصویر سے آغوش کی زینت
مرا پہلو تری تصویر کے قابل کہاں تک ہے
تم اپنے دل سے خود پوچھو یہ پرسش کس لئے مجھ سے
مری سعیٔ محبت سعئ لا حاصل کہاں تک ہے
ہو کچھ اس کا بھی اندازہ دم ہنگامہ آرائی
مری ممنون تیری گرمئ محفل کہاں تک ہے
طریق عشق کے سالک تو ہیں لاکھوں زمانے میں
طریق عشق میں لیکن کوئی کامل کہاں تک ہے
ازل کچھ روشنی ڈالے ابد عقدہ یہ کچھ کھولے
تری محفل کہاں سے ہے تری محفل کہاں تک ہے
بیان دل کے سننے کو تو ہم تیار بیٹھے ہیں
سزاوار یقیں لیکن بیان دل کہاں تک ہے
مجھے مختار کہنے والے یہ بھی غور فرمائیں
مری تقدیر میں میری رضا شامل کہاں تک ہے
سحر ہونے کو ہے گل شمع ہے رخصت ہیں پروانے
بجا اب اعتبار گرمیٔ محفل کہاں تک ہے
نہیں آسان میری مشکلوں کا جائزہ لینا
تجھے مشکل کشا اندازۂ مشکل کہاں تک ہے
کہیں ایسا نہ ہو موجیں بہا لے جائیں کشتی کو
نگہبانی کے قابل دیکھنا ساحل کہاں تک ہے
مسافر دو قدم بس چل کے یہ دعویٔ آگاہی
خبر بھی ہے تجھے تو واقف منزل کہاں تک ہے
تقاضائے مزاج دل کی ہے تکمیل تو ممکن
تحمل آشنا لیکن مزاج دل کہاں تک ہے
جو دل والے ہیں ان کا تجربہ تم کو بتائے گا
بساط زندگی میں اختیار دل کہاں تک ہے
مری کشتی بھنور میں ہے یقیناً ڈوب جائے گی
رفاقت کے لئے تیار اب ساحل کہاں تک ہے
مری خودداریاں طالبؔ ہیں میرے عجز کا پردہ
کہوں کیا صبر کا یارا دم مشکل کہاں تک ہے