ان دنوں حق جو بات کہتے ہیں

ان دنوں حق جو بات کہتے ہیں
جان سے دھو کے ہات کہتے ہیں


حسن کو نور ذات کہتے ہیں
عشق کی کائنات کہتے ہیں


دل کو جو بے ثبات کہتے ہیں
دن کو گویا وہ رات کہتے ہیں


جس کی معراج خود شناسی ہو
ہم اسے وصل ذات کہتے ہیں


ان کی ہمت پہ آفریں کہئے
جو اجل کو حیات کہتے ہیں


جان کا جسم سے جدا ہونا
کیا اسی کو نجات کہتے ہیں


کعبۂ دل ہے جلوہ گاہ بتاں
ہم اسے سومنات کہتے ہیں


ہوئے جاتے ہیں آپ کیوں برہم
ہم زمانے کی بات کہتے ہیں


نگہ قہر کو بھی دل والے
نگہ التفات کہتے ہیں


تم پر اپنا گمان ہوتا ہے
تم سے جب دل کی بات کہتے ہیں


بادۂ خوش گوار ہے ساقی
جسے آب حیات کہتے ہیں


کیا ہمیں گفتگو سے مطلب تھا
بات آنے پہ بات کہتے ہیں


جوہر روح کا پسینہ ہے
جسے عطر حیات کہتے ہیں


مس نہیں کچھ جنہیں تغزل سے
فلسفے کے نکات کہتے ہیں


ملتفت اپنی سمت کرنا ہے
تمہیں بے التفات کہتے ہیں


عیب جن کے ہنر سے ہوں طالبؔ
انہیں عالی صفات کہتے ہیں