قابل دید تھا جو رنگ بھی تغییر میں تھا

قابل دید تھا جو رنگ بھی تغییر میں تھا
لطف دنیا کی بدلتی ہوئی تصویر میں تھا


حرف بے کار تھا جو کچھ مری تقدیر میں تھا
حل ہر اک عقدۂ دشوار کا تدبیر میں تھا


میری تقصیر نے انسان بنایا مجھ کو
میری اصلاح کا پہلو مری تعزیر میں تھا


اب سزاوار فنا کوئی بنا لے ورنہ
مدعا زیست کا مضمر مری تقصیر میں تھا


خاک دنیا پہ اسیری کی لگائیں تہمت
پاؤں پہلے ہی سے الجھا ہوا زنجیر میں تھا


ایک مجموعۂ ضدین تھی ہستی میری
جزو تخریب بھی شامل مری تعمیر میں تھا


میرے جذبات کا اظہار مکمل کرتا
حوصلہ اتنا قلم میں تھا نہ تقریر میں تھا


سب مرے حسن تخیل کی فسوں کاری تھی
خواب میں تھا نہ اثر خواب کی تعبیر میں تھا


نہ ہوئی ہاں نہ ہوئی اور کسی کو توفیق
دل مرحوم کا ماتم مری تقدیر میں تھا


یوں نہ فی الفور ہوئیں میری دعائیں مقبول
امتحاں صبر کا پنہاں تری تاخیر میں تھا


اور روداد الم کیسے مکمل ہوتی
غم استاد بھی طالبؔ تری تقدیر میں تھا