نہ کفر کی نہ کبھی ہم سے دیں کی بات کرو
نہ کفر کی نہ کبھی ہم سے دیں کی بات کرو
کسی کی زلف کسی کی جبیں کی بات کرو
فضول کیوں فلک ہفتمیں کی بات کرو
جہاں پہنچ ہو تمہاری وہیں کی بات کرو
یہ بار بار ہے کیا ذکر زال دنیا کا
کسی حسیں کسی زہرہ جبیں کی بات کرو
بسی ہوئی ہے جو خوابوں میں روز اول سے
اگر کرو تو اسی نازنیں کی بات کرو
شعور و عقل میں یخ بستگی کا عالم ہے
نگاہ گرم رخ آتشیں کی بات کرو
جنوں زدوں کو اب اسباب ہوش ہے لعنت
نہ جیب کی نہ کبھی آستیں کی بات کرو
ہزار رنگ ہے جس سے حیات کا دامن
کرو تو حسن حیات آفریں کی بات کرو
یہ کیا کہ جب بھی ملو روئے جاؤ قسمت کو
کبھی تو خیر سے عزم و یقیں کی بات کرو
جناب شیخ بس اتنی سی عرض ہے اپنی
زمیں پہ رہ کے نہ عرش بریں کی بات کرو
وطن میں رہ کے وطن کا ہو تذکرہ پہلے
پھر اختیار ہے چاہے کہیں کی بات کرو
ازل سے گود میں جس کی پلے ہو اے طالبؔ
زبان شکر سے اس سر زمیں کی بات کرو