Talib Dehlavi

طالب دہلوی

طالب دہلوی کی غزل

    بصد شکوہ بصد آن بان نکلے گی

    بصد شکوہ بصد آن بان نکلے گی ہمارے ساتھ زمانے کی جان نکلے گی یہ زندگی کے قرینے سے آشکارا ہے کہ اپنی موت بھی عظمت نشان نکلے گی مجھے یقین ہے اپنی وفا پہ کچھ اتنا تری جفا بھی مری ہم زبان نکلے گی زبان کھل گئی میری کہیں جو محشر میں ہر ایک حرف سے اک داستان نکلے گی جو زندگی کی بلا تھی ...

    مزید پڑھیے

    ملا ہے دل ہمیں دلبر کی آرزو کے لئے

    ملا ہے دل ہمیں دلبر کی آرزو کے لئے زباں ملی ہے محبت کی گفتگو کے لئے تجھے حرم میں کلیسا میں دیر میں ڈھونڈھا کہاں کہاں نہ اٹھے پاؤں جستجو کے لئے تم آ گئے تو نہ ہم تم سے کہہ سکے کچھ بھی مگر زبان بنی آنکھ گفتگو کے لئے پسند آپ کو اپنے لئے جو ہو نہ سلوک نہ بھول کر بھی گوارا کریں عدو کے ...

    مزید پڑھیے

    رسم و راہ عوام کیا جانے

    رسم و راہ عوام کیا جانے عاشقی ننگ و نام کیا جانے در گزر میں جو لطف پنہاں ہے خوگر انتقام کیا جانے نہ ہو جس دل میں سوز شمع عمل جز سخن جز کلام کیا جانے موج دریا کی ہو روش جس میں وہ سکون و قیام کیا جانے تلخیاں رنج بے نوائی کی خاطر شاد کام کیا جانے پوچھئے میکشوں سے لطف شراب شیشہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    وہ مشت خاک جو پروانۂ دلگیر بنتی ہے

    وہ مشت خاک جو پروانۂ دلگیر بنتی ہے جگر کی آگ بجھ جاتی ہے جب اکسیر بنتی ہے حیات جاودانی ہاتھ آتی ہے فنا ہو کر مری خاکستر دل رشک صد اکسیر بنتی ہے نہ جینا راس آتا ہے نہ مرنا راس آتا ہے نہ یہ تدبیر بنتی ہے نہ وہ تدبیر بنتی ہے کچھ اپنی خانہ‌ بربادی سے اندیشہ نہیں مجھ کو مری دو ...

    مزید پڑھیے

    ہو رہے ہیں نامہ و پیغام ہنستے بولتے

    ہو رہے ہیں نامہ و پیغام ہنستے بولتے کٹ رہی ہے ہر سحر ہر شام ہنستے بولتے مل رہے ہیں نت نئے انعام ہنستے بولتے کھا رہے ہیں آپ کے دشنام ہنستے بولتے آپ رسوا ہوں ہمارے سامنے ممکن نہیں اپنے سر لے لیں گے ہر الزام ہنستے بولتے دل لگی ہی دل لگی میں کام اپنا بن گیا آ گیا پہلو میں وہ گلفام ...

    مزید پڑھیے

    میں کئے جاؤں گا تقصیر کہاں تک آخر

    میں کئے جاؤں گا تقصیر کہاں تک آخر تو نہ دے گا مجھے تعزیر کہاں تک آخر میرے ہر حرف کی تفسیر کہاں تک آخر جذبۂ شوق کی تشہیر کہاں تک آخر یہ کسی طور بھی پابند نہیں ہو سکتی پائے تخییل میں زنجیر کہاں تک آخر نقل پھر نقل ہے کیا اصل سے نسبت اس کو دل کو بہلائے گی تصویر کہاں تک آخر دیر تو ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی داستاں در داستاں سے کچھ نہیں ہوتا

    کسی کی داستاں در داستاں سے کچھ نہیں ہوتا اثر جب تک نہ ہو حسن بیاں سے کچھ نہیں ہوتا یقیں کی منزلوں میں این و آں سے کچھ نہیں ہوتا گماں کتنا ہی بڑھ جائے گماں سے کچھ نہیں ہوتا طلب صادق نہیں تو نارسائی کی شکایت کیا نہ جب تک دل کی شرکت ہو زباں سے کچھ نہیں ہوتا پگھل جاتا ہے پتھر بھی ...

    مزید پڑھیے

    موت بھی ہے یہی حیات بھی ہے

    موت بھی ہے یہی حیات بھی ہے زندگی دن کے ساتھ رات بھی ہے کیوں نہ پھر دل کا احترام کریں ہے یہ کعبہ تو سومنات بھی ہے میں گنہ گار ہی سہی لیکن اس میں شاید کسی کا ہات بھی ہے ان کی اک اک ادا پہ مرتے ہیں بے رخی بھی ہے التفات بھی ہے ہجر کی رات تیرا کیا کہنا ہاں نظر میں سہاگ رات بھی ہے نہ ...

    مزید پڑھیے

    جہاں میں مست الست انتخاب کیا کرتے

    جہاں میں مست الست انتخاب کیا کرتے سبو و شیشہ و جام شراب کیا کرتے ہر ایک ذرہ ہے آئینہ دار حسن صنم نگاہ غور سے ہم انتخاب کیا کرتے ہے انقلاب کی تفسیر دفتر ہستی ہم اس صحیفے سے پھر اکتساب کیا کرتے فروغ حسن سے خیرہ نگاہ عشق ہوئی تجلیوں کو وہ زیر نقاب کیا کرتے یہ ہے وہ نعمت نایاب جو ...

    مزید پڑھیے

    تمام کیف ترنم بغیر ساز ہوں میں

    تمام کیف ترنم بغیر ساز ہوں میں جو بے نیاز حقیقت ہے وہ مجاز ہوں میں مرے نیاز کی عظمت کسی کو کیا معلوم مزاج‌ ناز ہے مجھ سے دماغ ناز ہوں میں تجھے گمان کہ پردہ بہ پردہ تیرا وجود مجھے یقین کہ راز درون راز ہوں میں بدل گیا ہے تخیل ہی عشق کا ورنہ نیاز مند ہے تو اور بے نیاز ہوں میں مری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4