بصد شکوہ بصد آن بان نکلے گی
بصد شکوہ بصد آن بان نکلے گی ہمارے ساتھ زمانے کی جان نکلے گی یہ زندگی کے قرینے سے آشکارا ہے کہ اپنی موت بھی عظمت نشان نکلے گی مجھے یقین ہے اپنی وفا پہ کچھ اتنا تری جفا بھی مری ہم زبان نکلے گی زبان کھل گئی میری کہیں جو محشر میں ہر ایک حرف سے اک داستان نکلے گی جو زندگی کی بلا تھی ...