Syed Bashir Husain Bashir

سید بشیر حسین بشیر

سید بشیر حسین بشیر کی غزل

    کیوں نہ رنگیں ہو داستاں میری

    کیوں نہ رنگیں ہو داستاں میری ذکر ان کا ہے اور زباں میری حسن اپنی شکست مان گیا آفریں سعیٔ رائیگاں میری سیکڑوں حشر کے برابر ہے اک تمنا ہے جاں نشیں میری اڑ گیا رنگ ان کے عارض کا لب تک آئی نہ تھی فغاں میری کیوں سناؤں کسی کو میں آخر ان کا قصہ ہے داستاں میری وہ سمائے ہوئے ہیں رگ رگ ...

    مزید پڑھیے

    تمہارا حسن اثر کے سوا کچھ اور نہیں

    تمہارا حسن اثر کے سوا کچھ اور نہیں ہمارا ذوق نظر کے سوا کچھ اور نہیں نہ کم ہو کاش یہ سوز جگر قیامت تک کہ عشق سوز جگر کے سوا کچھ اور نہیں متاع سینۂ اہل نظر ہیں چند آنسو صدف کے پاس گہر کے سوا کچھ اور نہیں ہماری صبح کا عالم تمام درد و فراق تمہاری صبح سحر کے سوا کچھ اور نہیں بنا سکے ...

    مزید پڑھیے

    حجاب ہم تھے ہمیں سے حجاب ہو کے رہا

    حجاب ہم تھے ہمیں سے حجاب ہو کے رہا ہمارا شوق کسی کا نقاب ہو کے رہا کمال عشق نے جس دل کو انتخاب کیا نگاہ حسن میں وہ انتخاب ہو کے رہا نظر نظر رخ ساقی سے فیضیاب ہوئی نفس نفس کو سرور شراب ہو کے رہا مزے ملے ترے در پر وہ جبہہ سائی کے میں بے نیاز عذاب و ثواب ہو کے رہا جنہیں تھا رشک ...

    مزید پڑھیے

    یا تو وہ قرب تھا یا دور ہوا جاتا ہوں

    یا تو وہ قرب تھا یا دور ہوا جاتا ہوں اب تو اپنے سے بھی مستور ہوا جاتا ہوں شعلۂ عشق وہ شعلہ ہے کہ اللہ اللہ صدقے اس نار کے میں نور ہوا جاتا ہوں عالم جبر میں قوت کا تخیل تھا بہت اب وہ قوت ہے کہ مجبور ہوا جاتا ہوں عشق کی راہ میں منزل کوئی کھوئی ہی نہیں کیا خبر پاس ہوں یا دور ہوا جاتا ...

    مزید پڑھیے

    چل سکی کچھ نہ رہ عشق میں تدبیر مری

    چل سکی کچھ نہ رہ عشق میں تدبیر مری رنگ لاتی رہی ہر گام پہ تقدیر مری آئنہ کیا ہے فقط حامل عکس جلوہ ورنہ ہر ذرۂ عالم پہ ہے تصویر مری راز سے اپنے میں آگاہ نہیں ہوں پھر بھی جانتا ہوں کہ یہ کونین ہے تفسیر مری آتش عشق کا اک شعلۂ بے باک ہوں میں آب و گل سے نظر آتی نہیں تعمیر مری آفریں ...

    مزید پڑھیے

    مدار زیست ہے جس پر وہ سانس ہی کیا ہے

    مدار زیست ہے جس پر وہ سانس ہی کیا ہے اگر ہو عشق سے خالی تو زندگی کیا ہے حضور دوست خبر ہو کہ بے خودی کیا ہے اسی کا نام ہے غفلت تو آگہی کیا ہے نفس نفس ترا سجدہ قدم قدم تری راہ جو زندگی سے الگ ہو وہ بندگی کیا ہے نہ اب ہے قرب کی خواہش نہ جستجوئے کرم کسی کا غم ہے سلامت تو پھر کمی کیا ...

    مزید پڑھیے

    اک منظر رعنائی آفاق میں ہر سو ہے

    اک منظر رعنائی آفاق میں ہر سو ہے تاروں میں ترا جلوہ پھولوں میں تری بو ہے چاہا تھا کہ اپنے کو اک یار ذرا دیکھوں دیکھا تو یہی دیکھا اے دوست تو ہی تو ہے سجدہ میں رہے گا سر جو چاہے ستم کر لے تیری جو وہ عادت ہے اپنی بھی یہی خو ہے اک عالم حیرت میں ڈوبا ہوا رہتا ہوں اللہ رے مرا عالم عالم ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو دولت ملی ترے غم کی

    مجھ کو دولت ملی ترے غم کی کیا حقیقت ہے اب دو عالم کی میں نے گردن جہاں جہاں خم کی اک تجلی ہے نور پیہم کی حسن زینت ہے عہد مبہم کی عشق حرمت ہے نقش محکم کی نالہ پہونچا بہ حد خاموشی انتہا ہے جنوں کے عالم کی کیوں نہ واقف ہوں راز ہستی سے مجھ کو حاصل ہے معرفت غم کی جو تھا مظہر وہی بنا ...

    مزید پڑھیے

    نہیں آساں کہ انساں میں فرشتے کی ہو خو پیدا

    نہیں آساں کہ انساں میں فرشتے کی ہو خو پیدا شکست آرزو کرتی ہے ترک آرزو پیدا نہ دیکھو تو قیامت تک نہ آئے گا نظر جلوہ اگر دیکھو تو شکل یار ہوگی چار سو پیدا یہ نا ممکن ہے نالوں کا اثر اس سنگ دل پر ہو یہ ممکن ہے کہ آہوں سے ہو پتھر میں لہو پیدا پیوں گا شادماں ہو کر نگاہ مست ساقی سے کروں ...

    مزید پڑھیے

    بربادیوں پہ میری کسی کی نظر نہ ہو

    بربادیوں پہ میری کسی کی نظر نہ ہو دل چاہتا یہ ہے کہ تمہیں بھی خبر نہ ہو وارفتگان حسن سے اچھا نہیں حجاب برق جمال یار حریف نظر نہ ہو یہ بے خودیٔ عشق یہ احساس ہجر یار ہر صبح آفتاب تو نکلے سحر نہ ہو میری نظر نے حسن کو دل کش بنا دیا کیا جانے حسن کیا ہو جو میری نظر نہ ہو رکتے ہیں پاؤں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2