تمہارا حسن اثر کے سوا کچھ اور نہیں

تمہارا حسن اثر کے سوا کچھ اور نہیں
ہمارا ذوق نظر کے سوا کچھ اور نہیں


نہ کم ہو کاش یہ سوز جگر قیامت تک
کہ عشق سوز جگر کے سوا کچھ اور نہیں


متاع سینۂ اہل نظر ہیں چند آنسو
صدف کے پاس گہر کے سوا کچھ اور نہیں


ہماری صبح کا عالم تمام درد و فراق
تمہاری صبح سحر کے سوا کچھ اور نہیں


بنا سکے گی محبت ہی جاوداں اس کو
حیات رقص شرر کے سوا کچھ اور نہیں


حدود دیر و حرم میں سکون دل معلوم
یہاں تو نفع و ضرر کے سوا کچھ اور نہیں


بشیرؔ منزل ہستی سے دل پریشاں ہے
چلو کہ چارہ سفر کے سوا کچھ اور نہیں