اک منظر رعنائی آفاق میں ہر سو ہے
اک منظر رعنائی آفاق میں ہر سو ہے
تاروں میں ترا جلوہ پھولوں میں تری بو ہے
چاہا تھا کہ اپنے کو اک یار ذرا دیکھوں
دیکھا تو یہی دیکھا اے دوست تو ہی تو ہے
سجدہ میں رہے گا سر جو چاہے ستم کر لے
تیری جو وہ عادت ہے اپنی بھی یہی خو ہے
اک عالم حیرت میں ڈوبا ہوا رہتا ہوں
اللہ رے مرا عالم عالم میں تو ہی تو ہے
دیوانہ بنایا ہے کیوں اس کی محبت نے
اے بے خبر دنیا دنیا رم آہو ہے
جنت کے تصور کی اس وقت کہاں فرصت
رعنائی ساقی ہے سبزہ ہے لب جو ہے
انسان کا دل کیا ہے دنیائے حوادث میں
ٹوٹا ہوا تارا ہے ٹپکا ہوا آنسو ہے