سیا سچدیو کی غزل

    میں جس دن سے اکیلی ہو گئی ہوں

    میں جس دن سے اکیلی ہو گئی ہوں میں کیسی تھی میں کیسی ہو گئی ہوں نہیں کچھ یاد رہتا ہیں مجھے اب بچھڑ کر تم سے پگلی ہو گئی ہوں تصور نے ترے مجھ کو چھوا پھر اچانک سے میں اچھی ہو گئی ہوں ترا غم مجھ کو راس آنے لگا ہے بکھر کر پھر اکٹھی ہو گئی ہوں پریشانی یہ مجھ سے ہنس کے بولی ترے گھر کی ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ مجھ سے ملانے کی ان میں تاب نہیں

    نگاہ مجھ سے ملانے کی ان میں تاب نہیں میرے سوال کا شاید کوئی جواب نہیں بہت دنوں سے کوئی دل میں اضطراب نہیں سمایا آنکھوں میں اب اور کوئی خواب نہیں مری انا تو ابھی سر بلند ہے مجھ میں مجھے شکست بھی دے کر وہ کامیاب نہیں خدا کا شکر ہے شرم و حیا سلامت ہے وہ آئینہ ہے مگر میں بھی بے حجاب ...

    مزید پڑھیے

    رنج اتنے ملے زمانے سے

    رنج اتنے ملے زمانے سے لب چٹختے ہیں مسکرانے سے دھندلی دھندلی سی پڑ گئی یادیں زخم بھی ہو گئے پرانے سے مت بناؤ یہ کانچ کے رشتے ٹوٹ جائیں گے آزمانے سے تیرگی شب کی کم نہیں ہوگی گھر کے اندر دیے جلانے سے عقل نے دل کو کر دیا ہشیار بچ گئے ہم فریب کھانے سے ہو ہی جائیں گے ہم رہا اک ...

    مزید پڑھیے

    تیرا ہی ذکر ہرسو ترا ہی بیاں ملے

    تیرا ہی ذکر ہرسو ترا ہی بیاں ملے کھولوں کوئی کتاب تیری داستاں ملے دنیا کے شور و شر سے بہت تنگ آ گئے ممکن ہے اب تری ہی گلی اماں ملے پیدا تو کر بلندیاں اپنے خیال میں شاید اسی زمیں پہ تجھے آسماں ملے بس ایک بار اس سے ملاقات کیا ہوئی تا عمر اپنے آپ کو پھر ہم ملے محسوس تیرے قدموں کی ...

    مزید پڑھیے

    میری رسوائی کا یوں جشن منایا تم نے

    میری رسوائی کا یوں جشن منایا تم نے ریت پر نام لکھا اور مٹایا تم نے فکر کی دھوپ میں جھلسی ہوں کئی صدیوں تک میں نے پایا ہے تمہیں مجھ کو نہ پایا تم نے میں نے جب چاہا بھلا دوں تری یادوں کو تبھی پیار کا گیت مجھے آ کے سنایا تم نے عشق نے سدھ ہی بھلا دی تھی مرے تن من کی ٹوٹ ہی جاتی مگر مجھ ...

    مزید پڑھیے

    آپ کی بس یہ نشانی رہ گئی

    آپ کی بس یہ نشانی رہ گئی الجھنوں میں زندگانی رہ گئی جھوٹ آیا سامنے سچ کی طرح دور روتی حق بیانی رہ گئی جس کے دو کردار تھے تم اور میں یاد مجھ کو وہ کہانی رہ گئی جس کا کہہ دینا ضروری تھا بہت بات وہ تم کو بتانی رہ گئی خاک میں لپٹا ہوا بچپن گیا کرب میں لپٹی جوانی رہ گئی عمر گزری ہے ...

    مزید پڑھیے

    رشتوں کی کائنات میں سمٹی ہوئی ہوں میں

    رشتوں کی کائنات میں سمٹی ہوئی ہوں میں مدت سے اپنے آپ کو بھولی ہوئی ہوں میں میں خوش نصیب ہوں مرے اپنوں کا ساتھ ہے تنہائیوں سے پھر بھی کیوں لپٹی ہوئی ہوں میں دم گھونٹتی رہی ہوں تمنا کا ہر سمے ان حسرتوں کی قبر سجاتی رہی ہوں میں آتی ہے یاد آپ کی مجھ کو کبھی کبھی ایسا نہیں کہ آپ کو ...

    مزید پڑھیے

    موت جب میرے نزدیک آنے لگی

    موت جب میرے نزدیک آنے لگی زندگی پھر مجھے کیوں لبھانے لگی ایک تو کیا گیا ہے جہاں سے مرے جو بھی تھی آرزو سب ٹھکانے لگی خواب میں بھی بچھڑنے لگے مجھ سے تم نیند بھی آ کے مجھ کو ڈرانے لگی تو تو اپنی تھی میری تجھے کیا ہوا زندگی تو بھی اب آزمانے لگی دھوپ پر میں کوئی تبصرہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    قلم میں اشک بھر کر لکھ رہی ہوں درد کاغذ پر

    قلم میں اشک بھر کر لکھ رہی ہوں درد کاغذ پر بکھیرے جا رہی ہوں حسرتوں کو سرد کاغذ پر تڑپ عورت کے دل کی صرف اک عورت سمجھتی ہے بس اپنی خواہشوں کو لکھ رہے ہیں مرد کاغذ پر چلو مانا کہ کہہ لینے سے دکھ ہلکا ہی ہوتا ہے مگر کچھ ہی پلوں میں اتنا سارا درد کاغذ پر یوں ہی بس آج میں نے اک پرانی ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے چاہا اسے اسی کے بغیر

    ہم نے چاہا اسے اسی کے بغیر کاٹ دی عمر زندگی کے بغیر ایسے بھی کچھ چراغ ہوتے ہیں جلتے رہتے ہیں روشنی کے بغیر ہو گئے پار ہم تصور میں ناؤ چلتی رہی ندی کے بغیر ضبط کیا ہے یہ پوچھیے ہم سے مسکرائے ہیں ہم خوشی کے بغیر گھٹ کے رہ جائے گا اکیلے میں آدمی کیا ہیں آدمی کے بغیر

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3