سیا سچدیو کی غزل

    آنکھ جب برسے تو کیا پوچھنا موسم کیسا

    آنکھ جب برسے تو کیا پوچھنا موسم کیسا زخم تقدیر میں لکھا ہے تو مرہم کیسا حادثہ گزرا تھا وہ ایک ہی لمحے کے لیے زندگی پھر یہ بتا روز کا ماتم کیسا اب نہ دیوار سے شکوہ ہے نہ سائے کی طلب دھوپ جب میرا مقدر ہے تو پھر غم کیسا آسماں رات اگر رویا نہیں ہے تو بتا برگ گل پر ہے بھلا قطرۂ شبنم ...

    مزید پڑھیے

    رہ کر بھی تجھ سے دور ترے آس پاس ہوں

    رہ کر بھی تجھ سے دور ترے آس پاس ہوں ہجراں میں جل رہی ہوں میں جیسے کپاس ہوں قبضہ کیا ہے کس نے یہ میرے شعور پر اک عمر ہو گئی ہے مجھے بد حواس ہوں دنیا نہ دیکھ پائے گی تیرا کوئی بھی عیب مجھ کو پہن کے دیکھ میں تیرا لباس ہوں جس سے مرا سکون بھی دیکھا نہیں گیا دعویٰ وہ کر رہا ہے ترا غم ...

    مزید پڑھیے

    ہے دھوپ تیز کوئی سائبان کیسے ہو

    ہے دھوپ تیز کوئی سائبان کیسے ہو یہ وقت ہم پہ بھلا مہربان کیسے ہو نہ لفظ ہو تو کوئی داستان کیسے ہو زبان کاٹ لی تم نے بیان کیسے ہو ہمارے حصہ میں دو گز زمین بھی تو نہیں ہمارے حق میں کوئی آسمان کیسے ہو اڑے رہیں گے اگر اپنی ضد پہ دونوں فریق تو کوئی فیصلہ بھی درمیان کیسے ہو گنوا نہ ...

    مزید پڑھیے

    لکھا جو اشک سے تحریر میں نہیں آیا

    لکھا جو اشک سے تحریر میں نہیں آیا وہ درد لفظ کی تفسیر میں نہیں آیا ابھی کچھ اور جکڑ دشمنی کی بندش میں لہو کا ذائقہ زنجیر میں نہیں آیا ہو درد ہلکا تو جھوٹی خوشی بھی مل جائے اک ایسا لمحہ بھی تقدیر میں نہیں آیا کسی کے ہجر نے مفلس بنا دیا شاید پلٹ کے اپنی وہ جاگیر میں نہیں آیا وہ ...

    مزید پڑھیے

    تصورات میں دل کی اڑان دیکھ ذرا

    تصورات میں دل کی اڑان دیکھ ذرا اسی زمیں سے کبھی آسمان دیکھ ذرا ابھی تو جسم کے ہی گھاؤ تو نے دیکھے ہیں جو میرے دل پہ ہیں وہ بھی نشان دیکھ ذرا تو اس سے پہلے کریں بات غیر سنجیدہ مرا مزاج مرے قدردان دیکھ ذرا دھواں بھی ہو گیا اب تو فضاؤں سے غائب کہاں ہے شہر میں میرا مکان دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    در حقیقت روز و شب کی تلخیاں جاتی رہیں

    در حقیقت روز و شب کی تلخیاں جاتی رہیں زندگی سے سب مری دلچسپیاں جاتی رہیں نام تھا جب تک تو ہم پر سیکڑوں الزام تھے ہو گئے گمنام تو رسوائیاں جاتی رہیں اب خیالوں میں وہ میرے ساتھ صبح و شام ہے جب سے وہ بچھڑا ہے ساری دوریاں جاتی رہیں اس قدر تنہائیوں نے توڑ ڈالا ہے مجھے جسم سے ہو کر ...

    مزید پڑھیے

    جب میری کہانی میں وہ کردار نہیں اب

    جب میری کہانی میں وہ کردار نہیں اب جا مان لیا پہلے سا معیار نہیں اب لے تیرے ہی کہنے پہ تجھے چھوڑ دیا ہے کیوں اور کہاں کیسے کہ تکرار نہیں اب کچھ شوق نہ حسرت نہ تمنا نہ گزارش دنیا سے مرا کوئی سروکار نہیں اب وحشت بھی طبیعت میں ہے اور جوش جنوں بھی ٹکرانے کو سر سامنے دیوار نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زمانہ لاکھ سمجھتا ہو اہمیت میری

    زمانہ لاکھ سمجھتا ہو اہمیت میری مری نظر میں نہیں کوئی حیثیت میری کوئی تو تھا جو مری زندگی سے گزرا تھا بتا رہی ہیں زمانے کو کیفیت میری میں ساری دنیا کو اپنا ہی گھر سمجھنے لگوں نہ کوئی شہر ہو میرا نہ شہریت میری نوازشوں نے زمانے کی مجھ کو چونکایا مجھے کہاں تھی پتا کوئی خاصیت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3